عورت بچپن میں اپنے ماں باپ کی پیاری بیٹی کہلاتی ہے اس زمانے میں جب تک وہ نا بالغ بچی رہتی ہے شریعت کی طرف سے نہ اس پر کوئی چیز فرض ہوتی ہے نہ اس پر کسی قسم کی ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ ہوتا ہے وہ شریعت کی پابندیوں سے بالکل آزاد رہتی ہے اور اپنے ماں باپ کی پیاری اور لاڈلی بیٹی بنی ہوئی کھاتی پیتی' پہنتی اوڑھتی اور ہنستی کھیلتی رہتی ہے اور وہ اس بات کی حقدار ہوتی ہے کہ ماں باپ' بھائی بہن اور سب رشتہ ناتا والے اس سے پیارو محبت کرتے رہیں اور اس کی دل بستگی اور دل جوئی میں لگے رہیں اور اس کی صحت و صفائی اور اس کی عافیت اور بھلائی میں ہر قسم کی انتہائی کوشش کرتے رہیں تاکہ وہ ہر قسم کی فکروں اور رنجوں سے فارغ البال اور ہر وقت خوش و خرم اورخوشحال رہے جب وہ کچھ بولنے لگے تو ماں باپ پر لازم ہے کہ اس کو اﷲ و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نام سنائیں پھر اس کو کلمہ وغیرہ پڑھائیں جب وہ کچھ اور زیادہ سمجھدار ہو جائے تو اس کو صفائی ستھرائی کے ڈھنگ اور سلیقے سکھائیں اس کو نہایت پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ انسانی شرافتوں کی باتیں بتائیں اور اچھی اچھی باتوں کا شوق اور بری باتوں سے نفرت دلائیں
جب پڑھنے کے قابل ہو جائے تو سب سے پہلے اس کو قرآن شریف پڑھائیں۔ جب کچھ اور زیادہ ہوشیار ہوجائے تو اس کو پاکی و ناپاکی وضووغسل وغیرہ کا اسلامی طریقہ بتائیں اور ہر بات اور ہر کام میں اس کو اسلامی آداب سے آگاہ کرتے رہیں۔ جب وہ سات برس کی ہو جائے تو اس کو نماز وغیرہ ضروریات دین کی باتیں تعلیم کریں اور پردہ میں رہنے کی عادت سکھائیں اور برتن دھونے' کھانے پینے' سینے پرونے اور چھوٹے موٹے گھریلو کاموں کا ہنر بتائیں اور عملی طور پر اس سے یہ سب کام لیتے رہیں اور اس کی کاہلی اور بے پروائی اور شرارتوں پرروک ٹوک کرتے رہیں اور خراب عورتوں اور بد چلن گھرانوں کے لوگوں سے میل جول پر پابندی لگادیں اور ان لوگوں کی صحبت سے بچاتے رہیں۔ عاشقانہ اشعار اور گیتوں اورعاشقی معشوقی کے مضامین کی کتابوں سے،گانے بجانے اور کھیل تماشوں سے دور رکھیں تاکہ بچیوں کے اخلاق و عادات اور چال چلن خراب نہ ہو جائیں۔ جب تک بچی بالغ نہ ہو جائے ان باتوں کا دھیان رکھنا ہر ماں باپ کا اسلامی فرض ہے۔ اگر ماں باپ اپنے ان فرائض کو پورا نہ کریں گے تو وہ سخت گناہ گار ہوں گے۔
0 Comments: