دنیوی اور اخروی زندگی کا آپس میں رابطہ
ایک بنیادی اور اہم مسئلہ جس کی طرف آسمانی
کتب نے ہمیں متوجہ کیا ہے، دونوں زندگیوں میں پیوستگی
اور ربط ہے، یہ دونوں زندگیاں ایک دوسرے سے جدا نہیں۔
اخروی زندگی کا بیج انسان دنیا میں خود کاشت کرتا ہے، حیات اخروی کی تقدیر خود
انسان کے وسیلہ سے دنیوی زندگی میں متعین
ہو جاتی ہے۔
واقع کے مطابق درست اور پاک ایمان و اعتقاد
اور حقیقت پسندانہ تصور کائنات حسد، کینہ، مکر و فریب اور دھوکہ دہی سے پاک انسان
اخلاق اور طاہر عادتیں اور اسی طرح اعمال
صالحہ، جو فرد اور اجتماع کے کمال کے لئے انجام پاتے ہیں، خدمت خلق، اخلاص اور اس
طرح کی دوسری چیزیں جو انسان کے لئے ایک
جاوداں اور سعادت مند زندگی کی تشکیل کا
سبب ہیں اور اس کے برعکس بے ایمانی، بے
اعتقادی، غلط فکر، پلید اور بری عادتیں، خود خواہی، خود پرستی، خودبینی و تکبر،
ظلم و ستم، ریاکاری، سود خوری، جھوٹ، تہمت، خیانت، غیبت، چغل خوری، فتنہ و فساد، خالق
کی عبادت اور پرستش سے کنارہ کشی وغیرہ حیات اخروی میں انسان کی بے انتہا شقاوت اور بدبختی کا سبب ہیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت
خوبصورت فرمایا ہے :
الدنیا مزرعا الاخر
"دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ "
بدی یا نیکی کا جو بیج بھی دنیا میں کاشت کرو گے، آخرت میں اسی کا پھل کاٹو گے۔
جس طرح سے یہ محال ہے کہ انسان جو کاشت کرے
اور گندم کاٹے، کانٹے بوئے اور پھول چنے، حنظل کاشت کرے اور کھجور کا درخت اُگے۔
اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ دنیا میں انسان
برے خیال، برے اخلاق اور برے کردار کا حامل ہو اور آخرت میں نفع حاصل کرے۔
مرتضی مھطری
0 Comments: