کفن دفن کا ساراخرچہ یا تو خود میت کے مال سے ہواوراگر کسی کی بیوی یا بچہ مرا ہے تو شوہر یا باپ کے مال سے ہومیکہ سے ہرگز ہرگز نہ لیا جائے ۔ میت کے مال سے کریں ۔ ان دعوتوں کا یہ شرعی حکم ہے ۔ کسی سے ہرگز ہرگز نہ لیا جائے ۔ میت والوں کے گھر پڑوسی یا قرابت دار ، صرف ایک دن کھانا لے جائیں اوروہ بھی اتنا،جتنا کہ خالص گھر والوں یا ان کے پردیسی مہمانوں کو کافی ہو ۔ اوراس میں سنت کی نیت کریں نہ کہ دنیا وی بدلہ اورنام ونمود کی ۔ اگر تین روز تک تعزیت کے لئے میت والے مرد کسی جگہ بیٹھیں تو کوئی حرج نہیں مگراس میں حقہ کا دوربالکل نہ ہو بلکہ آنے والے فاتحہ پڑھتے آئیں اورصبر کی ہدایت کرتے جائیں۔ تین دن کے بعد تعزیت کے ليے کوئی نہ بیٹھے اورنہ کوئی آئے ہاں جو پردیسی قرابت دار سفر سے آئے تو جب بھی پہنچے میت والوں کی تعزیت کرے یعنی پرسادے ۔ عورتیں جب کسی کے گھر پر سادینے آتی ہیں تو خواہ مخواہ میت والوں سے مل کرروتی ہیں ۔ چاہے آنسو نہ آئیں،مل کرآواز نکالناضروری ہوتا ہے ۔ یہ بالکل غلط طریقہ ہے ۔ ان کو صبر کی تلقین کرو اوردسواں اور چالیسواں اوربرسی وغیرہ ضرورکرنا چاہیے مگر اس میں دو باتوں کا خیال ضرورہے ۔ ایک تو یہ کہ جہاں تک ہوسکے میت کے مال سے نہ کریں ۔ اگر کوئی وارث بچہ ہے ۔ تب اس کے حق سے یہ خیرات کرنا حرام ہے ۔ لہٰذا کوئی قرابت دار کھانا پینا وغیرہ اپنے مال سے کرے اوردوسرے یہ کہ کھانا صرف فقراء اورغرباء کو کھلایا جائے ۔ علم برادری کی روٹی ہرگز ہرگز نہ کی جائے ۔ اور فقراء پراس قدر خرچ کیا جائے جتنی حیثیت ہو قرض لے کر تو حج اورزکوٰۃ دینا بھی جائز نہیں ۔ یہ صدقہ وغیرہ سے بڑھ کر نہیں ۔ اس کی پوری تحقیق کے لیے اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی کتاب ''جَلِیُّ الصَّوْتِ لِنَھْیِ الدَّعْوَۃِ عَنْ اَہْلِ الْمَوْتِ'' دیکھو بلکہ دیکھنے والوں سے ہم کو معلوم ہوا ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جب کسی کے یہاں پر سادینے جاتے تو اس کے گھر حقہ ، پانی بھی استعمال نہ کرتے تھے ۔ کسی نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو دعوت نہیں فقط ایک تواضع ہے یہ کیوں نہیں استعمال فرماتے ؟ تو فرمایا کہ زکام کو روکو تاکہ بخار سے امن رہے ۔
ہماری اس گزارش کا مقصد یہ نہیں کہ تیجہ ، دسواں ، چالیسواں وغیرہ نہ کرو ۔ یہ تو دیو بندی یا وہابی کہے گا ۔ مقصد یہ ہے کہ اس کو اولیاء کے نام ونمودکے لئے نہ کرو بلکہ ناجائز اورفضول رسموں کو اس سے نکال دو ۔ حق تعالیٰ توفیق عطافرما دے ۔ آمین
0 Comments: