بلاشُبہ مَحبَّتِ خدا و رسول ایک نِعْمَت ہے، جن کے دل اللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّو صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی مَحبَّت سے سرشار ہوتے ہیں ان کی رُوْح بھی اس کی مِٹھاس مَحْسُوس کرتی ہے، ان کی زِنْدَگیاں جہاں اس پاکیزہ مَحبَّت سے سَنْوَرْتی ہیں وہیں یہ مَحبَّت تاریکی میں اُمِّید کا چراغ بن کر انہیں راہِ حَق سے بھٹکنے سے بھی بچاتی ہے، مگر یاد رکھئے! مَحبَّت اور عِشْق کے معنیٰ و مَفہوم میں قَدرے فَرْق ہے۔ کیونکہ اللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مَحبَّت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشِق کا دَرجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔چنانچہ ابو فضل اِبْنِ مَنْظُور اَفریقی لسانُ العرب میں عِشْق کا مَطْلَب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلْعِشْقُ فَرْطُ الْحُبِّ۔ یعنی مَحبَّت میں حَد سے تجاوُز کرنا عِشْق ہے۔1 اسی طرح اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنّت،مُجَدّدِ دىن و ملّت، پَروانۂ شَمْعِ رِسالَت مولانا شاہ اِمام احمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن عِشْق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مَحبَّت بمعنی لُغَوِی جب پختہ اور مُؤَکَّدہ(یعنی بَہُت زیادہ پکّی )ہو جائے تو اسی کو عِشْق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ تعالٰی سے پختہ مَحبَّت ہو جائے اور اس پر پختگیِ مَحبَّت کے آثار (اس طرح) ظاہِر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اَوقات اللہ تعالٰی کے ذِکْرو فِکْر اور اس کی اِطَاعَت میں مَصروف رہے تو پھر کوئی مانِع(یعنی رُکاوَٹ)نہیں کہ اس کی مَحبَّت کو عِشْق کہا جائے ، کیونکہ مَحبَّت ہی کا دوسرا نام عِشْق ہے۔2
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……… مکاشفة القلوب،۱۰- باب فی العشق، ص۴۲
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……… لسان العرب، ۵/ ۲۶۳۵
2……… فتاویٰ رضویہ ، ۲۱/۱۱۵ملتقطاً
0 Comments: