جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے ۱۲۵ سالہ جشن کے موقع پر
از :۔ مولانا سید غوث محی الدین حسینی نصر ؔالحق قادری
الہ العالمین کیسا ہجومِ پاکبازاں ہے
یہ کیسی انجمن ہے اژدہامِ اہلِ ایماں ہے
منور ہیں در و دیوار اک بزمِ چراغاں ہے
ہر اک ذرہ پہ تیرا فضل ہے رحمت نمایاں ہے
نظر ٹکتی نہیں ہے جامعہ کی اس عمارت پر
عجب انوار کا عالم ہے اس برجِ فضیلت پر
زمیں ایسی کہ رشکِ آسماں ہر ذرہ ذرہ ہے مکاں
ایسا عبادت گاہ جس کا گوشہ گوشہ ہے
مکیں ایسے کہ مصروف عبادت بچہ بچہ ہے
پھر اس پر ذوق طاعت میں اضافہ لحظہ لحظہ ہے
تجھے اے جامعہ ! اللہ اوج روز افزوں دے
جہانِ علم وحکمت میں مقام خاص و موزوں دے
معلم بن کے دنیا میں رسول اللہ خود آئے
ادھر قرآن اس بعثت کا مطلب صاف سمجھائے
پھر اس پر ’’بلغوا عنی‘‘ سے راہ عام کھل جائے ’
’درست العلم حتی صرت قطبا‘‘پیر فرمائے
حیات اسلام کی ہے علم سے گر علم ہے سب ہے
جو وصل وشوق کی لذت ہے مُردوں کے لئے کب ہے
سلام اے جامعہ تجھ پر‘ ترے اوجِ مقدر پر
سلام اے جامعہ اے مظہر انوار پیغمبر
سلام اے جامعہ اے درسگاہ و فضل کے محور
سلام اے جامعہ اے خانقاہ و علم دیں پرور
قیامت تک رہے تو اور تیرے چاہنے والے
خدا لے کام تجھ سے اور تیرے فیضیابوں سے
نہ جانے کتنے اربابِ فضیلت تجھ سے نکلے ہیں زمانے بھر کو
تھی جن کی ضرورت تجھ سے نکلے ہیں
قد آور عالمانِ پاک طینت تجھ سے نکلے ہیں
ہزاروں حاملانِ علم وحکمت تجھ سے نکلے ہیں
لیا کتنوں سے کام اللہ نے تیرے ذریعہ سے
خدا کا فضل کتنوں پر ہوا تیرے وسیلہ سے
خوشا باغِ فضیلت جس کا مالی علم پرور ہے
خشیت جس کے در پر آبیاری کو مقرر ہے
شجر ایسے کہ ہر ہر شاخ جس کی بار آور ہے
ثمر ایسے کہ جن کی مانگ اچھی دام بہتر ہے
خریداروں میں خود باری تعالی سامنے آئے
ادا کرنے کو قیمت ساتھ اپنا باغ بھی لائے
انہیں دیکھو انہیں یہ وارث علم پیمبر ہیں
انہیں دیکھو کہ تیجانِ عرب ان کے سروں پر ہیں
دلوں میں نورِ حق ہے کس قدر چہرے منور ہیں
کہ سینوں میں کلام اللہ کے انمول جوہر ہیں
جو سچ پوچھو مزے میں ہیں جو وابستہ یہاں سے ہیں
بڑوں کا ذکر کیا جاروب کش بھی فضل والے ہیں
حفاظت قاریانِ محترم نے کی قراء ت کی
ہجوم حافظانِ پاک نے اس کی حفاظت کی
خلوصِ عالماں نے بڑھ کے تشہیرِ شریعت کی
جناب صوفیہ نے بات کی نور بصیرت کی
یہ سب کارندہ سرکار ہیں حق کی طرف سے ہیں
مقررہ کردہ دربار ہیں حق کی طرف سے ہیں
خدا محفوظ رکھے تجھ کو چشم حاسد و بد سے
حفاظت ہو تری قلب عدو کے کینہ وکد سے
ابھی واقف نہیں بے چارہ تیرے قامت وقد سے
نہ ہو محروم دشمن بھی ترا افضالِ بے حد سے
برا چاہے جو تیرا یوں خدا اس کا بھلا کردے
نگاہِ عیب جو کا خوبیوں سے سامنا کردے
جمع اقطاع عالم سے ہوئے ہیں علم کے شیدا
طنابیں کھنچ گئیں ہیں مٹ گیا ہے فاصلہ ایسا
عرب سے اہل و علم و فضل ہوتے ہیں قدم رنجہ
ہیں آنکھیں نصرؔ سب کی فرشِ راہ اولیاء اللہ
الہی! فضل دائم ہو ترا ان مہمانوں پر
ہو بارش رحمتوں کی رات دن سب میزبانوںپر
سلام اے جامعہ تجھ پر ترے اصحابِ ہمت پر
سلام اے جامعہ تجھ پر ترے اربابِ حکمت پر
سلام اے جامعہ تجھ پر ترے سامانِ عظمت پر
سلام اے جامعہ تجھ سے میری حسنِ عقیدت پر
خدا تجھ کو سلامت با کرامت حشر تک رکھے
ترا اقبال تیری شان و شوکت حشر تک رکھے
0 Comments: