شیخ الاسلام مخلص و بے لوث خادم دین
مولانا نثاراحمدمصباحیصدرالمدرسین مدنی میاں عربک کالج ہبلی
شیخ الاسلام والمسلمین رئیس المحققین حضرت علامہ سیدمحمدمدنی میاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی ان مومنین کاملین میں سے ہیں جن کے قلوب مزکی ومصفیٰ ہوتے ہیں علائق وعرواض ان کے دلوں کے قریب بھی نہیں بھٹکتے ۔ اللہ عزوجل اور رسول اکرم ﷺ کی سچی محبت دل میں نسبی ہے اعمال وکردار میں اخلاص و للہیت کاعنصر پایاجاتاہے تزکیہ نفس و تصفیہ قلب اللہ تبارک وتعالیٰ وہ عطیہ ہے جو اس کی محبت میں سرشار رہنے والے کو عطا ہوتا کبھی صحبت عرفاء واولیا سے حاصل ہوتاہے۔
المختصر شیخ الاسلام تزکیہ وتصفیہ قلب میں عطیہ الٰہی بھی ہے اور اہل عرفان کی صحبت بابرکت کااثر بھی ہے، مرشدکامل شیخ المشائخ نبیرۂ اعلیٰ حضرت ،مجدد سلسلۂ اشرفیہ، حضوراشرفی میاں علیہ الرحمہ الشاہ سیدمختاراشرف اشرفی جیلانی قدس سرہ کی نظر بھی ہے اورآپ کے والد گرامی مخدوم الملت رئیس المتکلمین امام المناظرین سیدمحمد محدث اعظم ہند قدس سرہ کی عنایت توجہ بھی ہے۔
جب ہم شیخ الاسلام کی حیات کے درخشاں وتاباں گوشوں کودیکھیں اور پڑھیں توبے ساختہ کہہ اٹھیں گے کہ یہ مخلص فی الدین ہیں ۔ آپ سے جن کو ملاقات کا شرف حاصل ہوا یاصحبت میں بیٹھنا نصیب ہوا وہ چہرہ دیکھ کر ہی کہہ دیا کرتے ہیںکہ اللہ ورسول سے محبت رکھنے والے کا چہرہ ہے اور جن کو صحبت نہ ملی ہو آپ کی تصانیف پڑھ کر آپ کی تقاریر سن کر کہہ دے گا کہ ان تحریرات وتقاریر سے عشق رسول کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔
آپ کی عبادات وریاضات ، نششت و برخواست، جلوت و خلوت ، خطاب و تکلم ، رفتار وگفتار، تحریر و تقریر، تفسیر قرآن عظیم وتشریح احادیث نبی کریم ﷺ ،سوالات وجوابات، فقہ، فتاوی ، رشد و ہدایت کے اسفار، حمایتِ مذہبِ اہل سنت والجماعت سب حدیث رسول ﷺ
ثلاث لایغل علیھن قلب امرء میم
تین باتوں میں کسی سچے مسلمان شخص کو خیانت نہیں کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنا ، حکام مسلمین کو نصیحت کرنا، اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا ۔
حضورشیخ الاسلام کی تفسیر قرآن کریم سیدالتفاسیر المعروف بہ تفسیر اشرفی، الاربعین الاشرفی، محبتِ رسول ، تصدیق جبرئیل امین ، انماالاعمال بالنیات ، اسلام کا تصور الٰہ اور مودودی صاحب ، اسلام کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب، دین اور اقامت دین وغیرہ درجنوں کتب و رسائل کاعمیق مطالعہ کرتے جائیں جگہ جگہ اخلاص و للہیت کے گلِ تر نظرآئیں گے۔خدمت دین میں اخلاص وللہیت بے لوث دعوت و تبلیغ کا نتیجہ ہے کہآپ شہرت پسندی اور نام ونمود سے بہت دور نظر آتے ہیں ۔مثال کے طورپر ریاست گجرات کے ضلع بھروچ کے قصبہ واگھرا میں ایک تاریخی عظیم الشان انٹرنیشنل محدث اعظم کانفرنس ہوئی جس میں کثیرتعداد میں خانوادۂ اشرفیہ وغیرہ کے سادات عظام اور کئی صوبۂ ہند کے مشائخ کرام ہند وبیرون ہند کے مشاہیر خطبا و علماء شعرا وادبا ، مداحانِ خیرالانام ﷺکے ساتھ ساتھ مریدین ومعتقدین پورے ملک سے شیخ الاسلام کی زیارت و ملاقات اور شرف دیدار سے مشرف ہونے کی غرض سے اتنی تعداد میں جمع ہوئے کہ ایسا مجمع شاید آج تک نہ دیکھا گیاہو۔۵ لاکھ سے زائد مجمع تھا۔
حضرت سید قاسم اشرف اشرفی جیلانی صاحب قبلہ اپنے خطبئہ استقبالیہ میںفرماتے ہیں:ذمہ داران کانفرنس اور معتقدین آپ کے پچاس سالہ جانشینی کاپوراپورا حق ادا کرنے اور بہترین دینی وملی ،علمی و رحانی ، فلاحی و سماجی خدمات انجام دینے کی وجہ سے آپ کو چاندی سے تولنے کا ارادہ ظاہر کیا اور اصرار کرنے لگے لیکن آپ نے قبول نہیں کیا ۔آپ نے فرمایا جس کام میں نام و نمود کی بو ہو وہ ہمیں پسند نہیں ،منتظمین نے عرض کیا ہم اس کی رقم پیش کرینگے آپ اسے قبول فرمائیے یا محدث اعظم مشن کو عطا کر دیں ،حضرت نے فرمایا جو چیز میں اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہ اپنی تنظیم کے لیے بھی پسند نہیں کرتا۔
اس پیشکش کو ٹھکرانے کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ اس سے شہرت پسندی کی بو محسوس ہو رہی تھی ۔جسے آپ نے قطعاً پسند نہیں فرماتے۔
آپ کے انکار نے یہ بھی ظاہر کردیا سجادہ نشینی کے امور کی انجام دہی ہو یادینی خدمات ۔ نام ونمود ،شہرت کےلیے نہیں کیا بلکہ اللہ اور رسول کی خوشنودی کے لیے کیاہے۔
ویڈیو کے جوازاور ٹی وی کے استعمال پر مشروط جواز کافتویٰ کئی دہائیوں قبل دیے ۔اس فتوے کے بعد کئی لوگ ٹی وی پر ایسے ویسے کیسے کیسے بن گئے مگر واہ رے شان مدنی ۔کبھی بھی خودٹی وی کے پردے پر نظر نہیں آئے۔
ذمہ داران کیو ٹی وی نے حضورشیخ الاسلام سےرابطہ کئے اور بھرپورکوشش کئے کہ حضور شیخ الاسلام اپنا کچھ پروگرام یا انٹرویوQtvسے عوام المسلمین کے پیش فرمائیں لیکن آپ نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکارفرمایا۔
ایک او ر ٹی وی چیل بنام ’’ مدنی چینل‘‘ کاآغاز ہوا۔ ہر ممکن کوشش کی کہ ایک بار انٹرویو دیں مگر حضرت اس نام و نمود سے دور ہی رہے۔
ذاتِ شیخ الاسلام بچپن ہی سے نام ونمود کی پراوہ کیے نہ شہرت کی کوئی چاہ رکھی۔ صلہ و ستائش کی کبھی امید رکھی نہ کبھی طلب کی۔
جو ذاتِ ستودہ صفا ت بچپن سے شہرت سے دور رہی کیسے ممکن تھا ان پیشکش کو قبول کرتے۔
اسی اخلاص وللہیت کاثمرہ ہے کہ آپ دنیا سے بے رغبت نظر آتے ہیں ،ڈاکٹر طارق سعید صاحب جو گھر کے آدمی ہیں اور شیخ الاسلام کو قریب سے جانتے ہیں لکھتے ہیں
’’لاکھوں چاہنے والوں کا یہ فقیر منش انسان جسے دنیا مدنی میاں کے نام سے جانتی ہے احد صمدپروردگار نے اسے دنیا سے بے نیاز ومستغنی کردیا ہے جہاں بسیرا ڈال دیا وہ جگہ اس کا گھر اور مکان ٹھہرا خدا اپنے نیک بندوں پر مہربان ہوتا ہے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ
میرے خدا تو مجھے اتنا معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
سچ تو یہ ہے کہ اس پوری زمیں پر مدنی میاں کے پاس کوئی مکان یا گھر (شرعی یا قانونی لحاظ سے) ہے ہی نہیں‘‘
واقعی دنیا سے بے رغبتی اور تقویٰ اللہ کے محبوب ہونے اور لوگوں میں محبوب ہونے کا ذریعہ ہے۔
جیسا کہ حدیث پاک میں ہے
عن سھل بن سعد الساعدی قال اتی النبی ﷺرجل فقال یارسول اللہ ﷺدلّنی علی عمل عملتہ احبنی اللہ واحبنی الناس فقال رسول اللہ ﷺازھد فی الدنیا یحبک اللہ وازھد فیما فی اید ی الناس یحبوک
سہل ابن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺکی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے ایسا عمل بتادیجئے کہ اگر میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھے محبوب رکھے اور لوگ بھی محبوب رکھیں آپ نے فرمایا دنیا میں تقویٰ اختیارکرو اور لوگوں کے مال کے جانب رغبت نہ کرو تجھے لوگ محبو ب رکھیں گے۔
آپ کی بے نفسی و بے رغبتی عوام خواص سب پر عیاں ہے ۔آپ کی خطابت کا شہرہ ہندوپاک ہی میں نہیں بلکہ برطانیہ ، ہالینڈ، فرانس ، بلیجم ، شمالی امریکہ، کناڈا تک ہے اور شہنشاہِ خطابت آپ کاموزوں خطاب ہے لیکن کسی ملک کے کسی جلسہ میں مدعو کئے گئے ہوں نہ تو آپ نے کبھی کچھ طئے کیا نہ پہلے سے کچھ مطالبہ کیا نہ کوئی شکایت۔
کرناٹک کے مشہور شہر ہبلی میں جہاں آپ کا قائم کردہ عظیم الشان ادارہ مدنی میاں عربک کالج ہے اس ادارہ کے حالات کا جائزہ لینے یا سالانہ جلسۂ دستار بندی میں تشریف لائیں ہوں یا س ادارہ کے قیام سے پہلے آپ کا تبلیغی دورہ ہو جوکچھ آپ کی خدمت میں اہل عقیدت پیش کرتے ہیں آپ نہ اسے گنے نہ لفافہ کھولے بلکہ کئی بار تو ایسا ہوا کہ جہاں آپ کا قیام ہواہل خانہ ہی کے ذمہ کردیتے ہیں۔
اسی طرح تفسیر اشرفی کا معاوضہ نہ رائلٹی کی کوئی فرمائش۔ اور اپنی تصنیف خدمات کا بھی کبھی معاوضہ نہ لیے۔
آخر اس بے لوث خادم دین متین کی قربانیوں کا تذکرہ کیسےکریں جس نے سب کچھ اللہ کے لئے وقف کردیا ہو۔
0 Comments: