پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!صحابیات طیبات رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کس قَدْر مَحبَّت کرتی تھیں، یہ واقعہ اس بات کا واضِح ثُبُوت ہے کہ غزوۂ اُحد میں شیطان نے بے پَرکی یہ خَبَر اڑا دی کہ سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شہید ہو گئےہیں،جب یہ ہولناک خَبَر مدینۂ مُنَوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْماً میں پہنچی تو وہاں کی زمین دَہَل گئی یہاں تک کہ وہاں کی پردہ نشین عورتوں کے دِل و دِماغ میں صَدْماتِ غَم کا بھَونچال آ گیا،مدینہ کی گلیوں میں غَم و حُزْن کی فَضا چھا گئی، ہر طرف سے چیخ و پُکار کی آوازیں بُلَند ہوئیں اور ہر آنکھ اَشکبار ہوگئی،رِوایات میں آتا ہے کہ بعض عورتیں جب اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکیں تو تَفتیشِ حَال کے لیے دِیوانہ وَار میدانِ اُحد کی طرف چل پڑیں۔ 1
کسی نے کیا خوب اس مَنْظَر کو اَشعار میں یوں بیان کیا ہے:
سَماعَت میں جو یہ دِل رِیش اَخبارِ وَفات آئیں مدینے سے نِکَل کر مُومِناتِ قَانِتات آئیں
نبی کو ڈھونڈتی تھیں اس ہَلاکَت خیز میداں میں لیے پھرتی تھیں اِک تصویرِ حَسْرَت چَشْمِ حَیراں میں
بَہَر سُو زَخْمِیانِ جنگ کو پانی پِلاتی تھیں کہیں لیکن سُراغِ ساقیٔ کوثر نہ پاتی تھیں
وہ مائیں جنکی آغوشوں نے پہلے شیر نَر پالے رَضاکاری سے پھر اِسلام پر قُربان کر ڈالے
پِدَر، شَوہَر،بَرادَر، پِسَر سب اِسلام پر صَدْقے خوشی سے کر دئیے تھے گھر کے گھر اِسلام پر صَدْقے
نہ رِشتے اب نہ کوئی مامتا مَطْلُوب تھی ان کو وُجُودِ پاکِ ہادی کی بَقا مَطْلُوب تھی ان کو2
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!غَمِ سرکار میں نِڈھال وَارَفتگی کے عالَم میں میدانِ اُحد کی طرف جانے والی ان صحابیات کے عِشْقِ رَسول کے بھی کیا کہنے! راستے میں انہوں نے اپنے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹوں کی لاشیں بھی دیکھیں مگر کوئی پروا نہ کی اور جب تک انہوں نے جانِ جاناں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا ان کے دلِ بے قَرار کو چین نہ آیا۔ آئیے! ان عُشّاقِ رَسول صحابیات کا تذکرہ کرتی اور اپنے دِلوں کو بھی عِشْقِ رَسول سے گرماتی ہیں:
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……… سبل الھدی، الباب الثالث عشرفی غزوة احد، ذکر رحیل النبی …الخ، ۴/ ۳۳۵
2 ……… شاہنامہ اسلام مکمل، حصہ سوم، ص۴۹۶
0 Comments: