آصف جاہ سابعکی فروغ دینی علوم میں سرپرستی
از : مولانا پروفیسر محمد سلطان محی الدین صاحب‘
سابق صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیوسٹی ،صدر جمہوریہ ایوارڈیافتہ
سلطان العلوم، شمس الملۃ والدین نواب میر عثمان علی خاں نظام سابع مرحوم کے زرین کارناموںمیں ایک روشن اور اہم کارنامہ دینی علوم کی تعلیم واشاعت ہے۔ علوم شرقیہ کی ترویج واشاعت میں حضورنظام کی سرپرستی اور عطوفات شاہانہ کو بھلایا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ آصف سابع کی زندگی کا اہم جزرہاہے۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جسکے ساتھ اس مختصر مضمون میں پورا انصاف تو نہیں کیا جاسکتا تاہم اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ دینی علوم والسنہِ شرقیہ کے فروغ میں سلطان العلوم کی کس درجہ توجہات اور مساعی جمیلہ رہی ہیں تاکہ نئی نسل آصف جاہ سابع کی وقیع تاریخ کے اس روشن پہلو اور اہم باب سے واقف ہو اور اس کواپنے لئے مشعل راہ بنائے۔
قرآن حکیم میں کثرت سے نہ صرف سابقہ قوموں کے حالات وواقعات کا تذکرہ کیا گیاہے بلکہ انبیاء علیہم السلام کوہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ پچھلی قوموں کے قصوں اور گزرے ہوئے واقعات اور معرکوں کویاد دلائیں چنانچہ حکم دیاگیا۔ {وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ}کیونکہ ان واقعات کی حیثیت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو یاد کرنے اوریاد دلانے ، سننے اورسنانے میں بڑی مصلحتیں اور کئی فوائد مضمرہوتے ہیں۔ان سے آگہی اور دعوت فکر وعمل ملتی ہے۔ غفلت، بیداری سے بدلتی ہے۔ سلطان العلوم کی صدی تقاریب کا انعقاد بھی اسی قبیل کا ہے جو نہایت مفید اوربامقصد سعی مشکورہے۔
ایک زوال پذیرمعاشرہ کیلئے اس قسم کے اجتماعات سدباب اورپھر اس کے احیاء وارتقاء کیلئے ضروری اور ناگزیر ہوجاتے ہیں ایسے تقاریب کا مقصد صرف ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہہ لینا نہیں ہے اور نہ ہوناچاہئیے ۔
لَیْسَ الْفَتَی مَنْ یَقُولُ کَانَ اَبِی
وَلِکِنَّ الْفَتَی یَقُولُ ھَا أنَذَا
نوجوان کی بہادری یہ کہنے میں نہیں ہے کہ میرے باپ یہ تھے، ایسے تھے، بلکہ اس کی اصل بہادری تویہ کہنے میں ہے کہ میں بھی کچھ کم نہیں ۔ موافق سلف نہ ہوں تو ناخلف ، خدمات وکارناموں میں ان کے برابرہوں تو خلف اور اگر ان کارناموں میں سلف سے بھی بازی لے جائیں تو ’’خلف الرشید‘‘ کہلاتے ہیں۔ غرض کہ اسلاف کے شاندار کارناموں کے تذکرہ کی بنیاد ہی یہ ہے کہ افراد وقوم میں جذبات عملی پیہم پیدا کئے جائیں ۔ ماضی سے حال کوسدھارتے اور سنوار تے ہوئے مستقبل کو درخشاں بنایا جائے ۔ حضرت سعدیؒ نے اسی متن میں بڑی حکمت ودانش کی بات ہمیں بتائی ’’میراث پدر خواہی علم پدر آموز‘‘باپ کی میراث اور ان کا مقام ومرتبہ چاہتے ہوتوان کا علم وہنرسیکھو اور ان جیسے مہتم بالشان کارنامے انجام دو۔ ان اشارات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ وہ یادیں ہیں جومعاشرہ کی حمیت وغیرت کو جھنجوڑتی اور جادئہ عمل پر گامزن کرتی ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے ارتقائی مراحل اس وقت تک طے نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کو اپنی منزل کا شعور نہ ہو۔ معاشرہ اپنے ارتقاء کی کس منزل ومعیار پر ہے اس کا اندازہ تو اس کے علوم وفنون اور صنعتوی سے ہی کیا جاسکتا ہے دوسرے الفاظ میں کسی قوم وملت کے استحکام اورہمہ پہلو ترقی کا راز دراصل علوم وفنون کے حصول اور ان میں مشاہدات ومہارت پیدا کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اگر ہم سلطان العلوم کے درخشاں اور حیات آفریں دور کا بالا ستیعاب مطالعہ کریں تو ذہن میںعہدِ عباسی کے زرین عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ جدید حیدرآباد کے عظیم معمار کے عظیم وفخیم کارنامے، تاریخ اسلام کے عموماً اورتاریخ دولت ِآصفیہ کے خصوصاً درخشاں ابواب ہیں۔
اصول سلطنت ہوں یاتدبیرِ مملکت ، نظم ونسق عامہ ہویا زراعت وتجارت، آب پاشی کاانتظام ہوکہ صنعتوںکا فروغ، قدیم علوم والسنہ کی تعلیم واشاعت ہوکہ عصری علوم فنون اور اَلِسنہ جدیدہ کی ترویج وتعلیم ، رعایاپروری ہو یا عام رواداری ، ادب وفنون لطیفہ ہوں یا شعر وسخن غرض کہ ہر شعبہ حیات میں سلطان العلو م کے نمایاں کارنامے رہنما اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کے ان عظیم الشان اور بیشمار کارناموںکو دیکھ کر بے ساختہ زبان پر یہ شعر آجاتاہے۔
زفرق تابہ قدم ہرکجاکہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا است
ہم اب اس امر کا جائز ہ لیتے ہیں کہ سلطان العلوم نے دینی علوم کی تعلیم واشاعت میں کیا حصہ لیا اورکسقدر سرپرستی کی؟ آصف جاہ سابع کے عہد میمنت میں تین بڑے تعلیمی ادارے تھے، جنہیں تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ دارالعلوم ، جامعہ نظامیہ، اور جامعہ عثمانیہ، ۱۸۵۶ء میں دارالعلوم قائم ہوا دارلعلوم کے قیام کے کوئی ۲۷سال بعد ۱۸۷۵ء میں جامعہ نظامیہ قائم ہوا اور جامعہ نظامیہ کے قیام کے بعد ۱۹۱۸ء میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل آیا۔
دارالعلوم، علوم دینیہ عربیہ اور السنہ شرقیہ کا پہلا کالج تھا۔ اس کا نصاب تعلیم ’’درس نظامی ‘‘تھا۔ علوم ِمتداولہ کے علاوہ دارالعلوم میں عصری ضروریات کو ملحوظ رکھا گیاتھا۔ اسکے دوسرے شعبہ میں انگریزی حساب اور مقامی زبانوں کی بھی بقدرضرورت تعلیم دی جاتی تھی۔ اس تعلیمی ادارہ سے کئی نامور اور ممتازعلماء پیداہوئے۔ لیکن جب عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوگئی تو دینیات کا پورا شعبہ جامعہ عثمانیہ میںمنتقل کردیا گیا جس سے دارالعلوم کی انفرادیت ختم ہوگئی ۔ اس طرح اس کا وہ امتیاز باقی نہیں رہا جوپہلے تھا۔
جامعہ نظامیہ :۔درس نظامی کا واحد مرکز تھا اسکے موقربانی شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ بہادر قدس سرہٗ العزیز نے ۱۲۹۲ھ میں ا س عظیم درسگاہ کو قائم فرمایا ملک کے بعض ممتاز اور بڑے بڑے علماء اسی درسگاہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ ابتداء میں یہ اہل خیرکی امداد پر چلتا رہا ۔ جب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ اعلحضرت کی تعلیم پر مقرر کئے گئے تو مدرسہ کے لئے پانچسو روپیہ ماہوا ر امدا د مقرر فرمائی اب یہاں سے شاہی سرپرستی کا دور شروع ہوتاہے۔ ۱۳۰۶ ھ میں محکمہ عالی کی طرف سے دوسوروپیہ ماہوارامداد جاری ہوئی تاآنکہ آصف سابع بھی مولانا انواراللہ کے تلامذہ میں داخل ہوئے اور جب تخت نشین ہوئے تو مدرسہ کی سالا نہ امداد میں ایک ہزار تین سو ماہوار کا اضافہ فرمایا کچھ عرصہ بعد امداد دوہزار پانچسوروپیہ کردی گئی سلطان العلوم کی شخصی سرپرستی اس کے علاوہ رہی ۔ اخیر زمانہ میں معتمد امورمذہبی کی تحریک پر آصف جاہ سابع نے ذریعہ فرمان ۱۹؍ربیع الاول ۱۳۶۷ھ م مئی ۱۹۴۸ء کے مراسلہ فینانس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جامعہ کے نام (۳)لاکھ سالانہ اور (۲)لاکھ امداد منظور ہوئی۔ مدرسہ اور بانی مدرسہ حضرت فضیلت جنگ سے سلطان العلوم کو جو تعلق خاطرتھا فرامین ذیل سے اس کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
۱)مولوی محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ بہادر اس ملک کے مشائخ عظام میں سے ایک عالم باعمل اور فاضل اجل تھے۔ اور اپنے تقدس و تورع اور ایثار نفس وغیرہ خوبیوں کی وجہ سے عامۃ المسلمین کی نظروں میں بڑی وقعت رکھتے تھے۔ وہ والدمرحوم اور میرے ، نیزدونوں بچوں کے استاد بھی تھے اورترویج علوم دینیہ کے لئے مدرسہ نظامیہ قائم کیاتھا۔ جہاں اکثر ممالک بعیدہ سے طالبان علوم دینیہ آکرفیوض معارف وعوارف سے متمتع ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب کومیں نے اپنی تخت نشینی کے بعد ناظم امور مذہبی اور صدر الصدور مقرر کیاتھا اور مظفر جنگ کا انتقال ہونے پر معین المہامی امورمذہبی کے عہد ہ جلیلہ پر مامور کیا تھا۔ مولوی صاحب نے سررشتہ امور مذہبی میں جو اصطلاحات شروع کیں وہ قابل قدرہیں۔ بلحاظ ان فیوضات کے مولوی صاحب موصوف کی وفات سے ملک و قوم کو نقصان پہونچا اور مجھ کو نہ صرف ان وجوہ سے بلکہ تلمذکے خاص تعلق کے باعث مولوی صاحب کی جدائی کا سخت افسوس ہوا۔ میں چاہتاہوں کہ ان کی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے مدرسہ نظامیہ میں دو تعلیمی وظیفے ۲۵؎ ۲۵؎ کے نام سے ہمیشہ کے واسطے قائم کئے جائیں(۱)۔
سلطان العلوم اپنے اساتذہ کابڑا ادب واحترام کرتے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقیؒ آپ کے (۲۱) سال تک استاد رہے۔ تلمیذمودب فرماتے ہیں۔
با ادب سررانگوں کردہ بہ پیش عالمے
از علومِ دیں نگر ما استفادہ کردہ ایم
درسگاہ کی شان میں ایک قطعہ موزوں فرمایا:۔
چومستی ازشراب ناب گشتہ
ہمہ تشنہ دہن سیراب گشتہ
زفیضِ بانی استاد سلطاں
ریاضِ علمِ دیں شاداب گشتہ
جامعہ کی جدید عمارت کی تقریب سنگ بنیاد کے موقع پر فرمایا:۔
قیمتِ جنس فزوں تر ہوئی بازاروں سے
دل بھی آباد ہوا دیکھ خریداروں سے
آمدِ بادبہاری نے جمایا نقشہ
خلشِ گُل بھی مٹی دیکھ لے توخاروں سے
بلبلیں اُڑتی ہیں ہو ہو کے چمن پرقرباں
رنگِ گل پھوٹ پڑا آج جو گلزاروں سے
دیکھ لے آج ذراشانِ علومِ دینی
صوتِ تبریک نمایاں ہے جو مزماروں سے
سنگ اور خشت نے بھی خوب دکھایا جوہر
صنعتِ قصر ہوئی دیکھ لے معماروںسے
شام کہتی ہے یہی صبحِ صفاسے سن لو
جگمگا یاہے فلک دیکھ لے تو تاروںسے
نہیں معلوم ہوا کیاہے جبھی تو عثماںؔ
گونج اٹھا مکتبِ انوار پرستاروں سے
۲)آصف جاہ سابع نے ایک او رفرمان مبارک میں کہا:۔
جامعہ نظامیہ کی تعلیمی حالت کو دیکھنے کیلئے بشرطِ صحت جامعہ میں آتے رہوں گا اور عرِس شریف کا اہتمام صیغہ اعراس صرفخاص مبارک سے ہوگا تاکہ اس شاگرد کو فائدہ پہونچے۔
۳)فرمایا: جامعہ کی تنظم جدید ہوگی اور اس وقت یہ جامعہ ہر قسم کی اعانت کا مستحق ہے جس کو دینے کے لئے ایک شاگرد آمادہ ہوگیاہے۔ اپنا فرض منصبی سمجھ کر زمانہ گذشتہ میں بہ شمول شاگرد کلاں (مرحوم سرکار) ہر دونے علم دین حاصل کرکے اپنے استاد کا نام دنیا میں روشن کیا جس کے مولوی صاحب مستحق تھے۔ لاشک فیہ۔
فرمایا:۔
بانی مکتب کی عثماںؔ یاد بھی آتی رہے
نغمے بھی اس ذات کے صبح ومساگاتی رہے
برسرِ قبرِ مطہر کہتا ہے سارا جہاں
آمدِفصلِ بہاری پھول برساتی رہے(۲)
۴)ذریعہ فرمان مبارک ۳؍سپٹمبر ۱۹۶۱ء یہ ہدایت جاری فرمائی۔
’’زمانہ گذشتہ سے لے کر تاایں وقت یہ جامعہ دینی درسگاہ اور مرکزعلوم مشرقی رہاہے جسکو امورسیاسی یا کسی پولٹیکل پارٹی سے کبھی تعلق نہیں رہا لہذا آئندہ بھی اس کا مسلک یہی رہے گا تاکہ آفاتِ جہاں سے یہ محفوظ رہے۔ خصوص اس حالت میں کہ اس کا مربی اور سرپرست نظام سابع ہے ایسی حالت میں وہ امور مذکور ہ کی نگرانی کرتارہے گا تاکہ اسکے اعداء یا بدخواہ کسی وقت ا س جامعہ کو پیچیدگیوں میں لاکر بدنام نہ کردے کیونکہ حالات دنیا دگرگوں ہے لہذا احترام واحتیاط کی سخت ضرورت ہے بقول
ہیچ آفت نہ رسد گوشئہ تنہائی را
غرض کہ سلطان العلوم نے اس دینی درسگاہ کی ایسی آبیاری کی کہ سار ے ہندوستان ، سمرقند وبخارا ، افغانستان اور بنگال سے طالبانِ علوم دینیہ نے اس سرچشمہ فیوض وبرکات سے فیض حاصل کیا ۔ الحمد للہ آج بھی ملک اور بیرون ملک میں اس کا فیض جاری ہے۔
امداد مدارس دینیہ:۔سلطان العلوم نے نہ صرف جامعہ نظامیہ کی سرپرستی فرمائی بلکہ مدارس دینیہ کی امداد میں فراخدلی سے حصہ لیا ان امدادی مدارس کی فہرست بڑی طویل ہے حضور نظام سابع کی اس امداد میں شیخ الاسلام حضرت فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی سفارشات کا بڑا دخل تھا۔ اس سلسلہ میں چند اہم مدارس دینیہ کے نام’’ مطلع انوار‘‘ کے حوالے سے ذیل میں دئے جاتے ہیں۔
۱۔مدرسہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف ماہانہ ایک ہزار روپیہ
۲۔اضافہ امداد مدرسہ دارالعلوم ۔ (۶)سوروپیہ ماہانہ
۳۔مدرسہ کولھاپور۔ (۲) سورروپیہ ماہانہ
۴۔ مدرسہ حفاظ خلد آباد شریف ۔ (۱۰۰) روپیہ ماہانہ
۵۔مدرسہ حفاظ مکہ مسجد۔ (۱۲۵)روپیہ ماہانہ
۶۔مدرسہ بدایون (۱۲۵)روپیہ ماہانہ
۷۔مدرسہ سبحانیہ الہ آباد (۱۰۰)روپیہ ماہانہ
۸۔مدرسہ فتح پور سیکری (دلی) پچاس روپیہ ماہانہ
۹۔مدرسہ میواڑ اودے پور (۱۲۵)روپیہ ماہانہ
۱۰۔امداد مدرسہ برار ماہوا ر و یکمشت برائے تعمیر مسجد
۱۱۔ امداد انجمن ہدایت الاسلام اور نگ آباد پچاس روپیہ ماہانہ(۳)۔
اسی طرح سلطان العلوم نے اشاعت علوم کے لئے دائرۃ المعارف ، مجلس اشاعت العلوم ، اسلامک کلچر، ندوۃ المصنفین ، جیسے کئی علمی اداروں کی مالی سرپرستی فرمائی ۔سیرۃ النبی مولانا شبلی نعمانی کی طباعت واشاعت میں بڑی بڑی امدادیںجاری کیں ۔ تراجم قرآن میں گرنقدار اعانت فرمائی ، مساجد ، خانقاہوں اور مزارات کی تعمیرمیں بڑا حصہ لیا، علماء و شعراء ، مصنفین اور مؤلفین کی قدر افزائی کی۔ اسلامی معاشرہ میں جو بگاڑ او رخرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کو دور کرنے کے لئے اصلاحات نافذ کئے۔
دائرۃ المعارف العثمانیہ :۔۱۸۸۸ء میں شیخ الاسلام حضرت فضیلت جنگ ، نواب عماد الملک ؒ اور ملا عبدالقیوم ؒ کی مشترکہ مساعی سے دائرۃ المعارف کاقیام عمل میںآیا۔ اس شہرہ آفاق ادارے سے اب تک ۱۵۲ قدیم نادر علمی، ادبی ، تاریخی اور ثقافتی بلندپایہ مخطوطات کی تصحیح اور تعلیقات کے ساتھ طباعت اور اشاعت کی گئی حیدرآباد کا یہ وہ ممتاز اور وقیع علمی ادارہ ہے۔ جس سے نہ صرف علوم اسلامیہ کی اشاعت ہوئی بلکہ دنیا میں اس سے ہمارے ملک کا نام روشن ہوا اور ہورہاہے۔
مجلس اشاعۃ العلوم :۔اس موقر مجلس کو بھی حضرت فضیلت جنگ بہادر نے حضور نظام سابع کی سرپرستی میں ۱۳۲۰ھ میں قائم فرمایا ، اس ادارہ کا مقصد قیام یہ ہے کہ اس کے ذریعہ علماء کی تصنیفات وتالیفات کو طبع کیا جائے چنانچہ اس ادارے سے اب تک (۱۵۰) کتب قیمہ شائع ہوچکی ہیں بیشتر حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ کی تصانیف ہیں۔
اسلامک کلچر:۔آج سے کوئی (۷۸)سال پہلے کی بات ہے کہ حیدرآباد سے اسلامی تہذیب وثقافت کو ایک انگریزی رسالہ کے ذریعہ پیش کرنے کی تجویز ملک کے ممتازعلماء اور عمایدین نے سلطان العلوم کی خدمت میں پیش کی ۔ سلطان العلوم نے اس تجویز کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس کو شرف قبولیت بخشا ۱۹۲۵ء میں نواب عماد الملک کی صدارت میں موقرا دارہ وجود میں آیا اور ۱۹۲۷ء میں مسٹر محمد پکتھال کے زیر ادارت ’’اسلامک کلچر ‘‘کے نام سے پہلا شمارہ شائع ہوا۔ مسٹر پکتھال کی وفات کے بعد مشہور مستشرق اسدوس اور ان کے بعد سید ہاشمی فرید آبادی مدیر ہوئے ان کے بعد ڈاکٹر عبدالمعید خاں صاحب پرو فیسرشعبہ عربی وناظم دائرۃ المعارف کو اس کا معتمداور اڈیٹر بنایا گیا اب یہ مجلہ پوری آب وتاب کے ساتھ شائع ہونے لگا یہ اپنے علمی معیار رکھ رکھاؤ اور مستند مواد کی بدولت بین الاقوامی شہر ت کا حامل ہے۔ مغرب ومشرق کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کرنے والے اسکالرا س سے کافی مواد حاصل کرتے ہیں اور بیشتر محققین اپنی تحقیق میں اکثر اس کا حوالہ دیا کرتے ہیں۔ اب یہ مجلہ ثقافیہ نواب مکرم جاہ بہاد کی سرپرستی اور نواب مفخم جاہ کی صدار ت میں پابندی کیساتھ اسی آب وتاب کے ساتھ شائع ہورہاہے۔
غرض کہ یہ دینی علوم او راسلامی ثقافت کی ترویج واشاعت ابتداء ہی سے سلطان العلوم کی سرپرستی کے برکات وثمرات ہیں ۔ سلطان العلوم کی دینی علوم کی تعلیم واشاعت میں سرپرستی درا صل ان کے ذاتی ذوق وشوق اور ان میںدستگاہ کا اصل سبب یہ ہے کہ آپ کو ممتاز اوریکتائے روزگار اساتذہ میسر آئے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقیؒ ، نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی اور علامہ سید علی شوستری ۔ اس کے علاوہ شعائردینی کا آپ کو بڑ ا لحاظ وپاس تھا جب بھی آپ مکہ مسجد تشریف لے جاتے تو لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور آداب بجالاتے آپ نے اس عمل کو سختی سے روکا اور فرمایا خدا کے گھر میں بادشاہ اور فقیر دونوں برابر ہیں۔ سب کو ایک رنگ میں خدا کے حضور کھڑ ا ہونا چاہئیے ۔ سلطان العلوم کا یہ احساس وعمل اپنے اندر کسقدر حقیقت رکھتا ہے۔ اسی طرح آپ کو صحابہ کرام کے آداب واحترام کا ہر وقت خیال رہتاتھا۔ ۱۹۳۶ء میں جب آپ نے دلی کا سفر کیا تو آپ کے لئے خواجہ حسن نظامی صاحب نے سماع کا اہتمام کیا۔ حسنِ اتفاق سے وہ دن حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کا دن تھا، شمس الملۃ والدین نے خواجہ صاحب کو خط لکھا جسکا متن یہ ہے۔
’’حسن نظامی صاحب ۔ بعد نماز جمعہ ۱۸ذالحجہ کو جو قوالی کی شرکت کی دعوت دی ہے تو اس کے متعلق مجھے یہ کہنا ہیکہ یہ ٹھیک ہے مگر اس دن خلیفہ سومؓ کی شہادت بھی واقع ہوئی ہے جس کا ہم کو (اہل تسنن کو) احترام کرنا ہے جو کہ داماد و صحابی جلیل رسول تھے۔ اس لئے آئندہ جمعہ ۲مارچ کو اگر یہ مجلس قوالی مقررہوتی تو میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کی زیارت سے فارغ ہوکر بعد نماز جمعہ اس میں خوشی سے شرکت کرتا اس لئے ارادہ ہے کہ آئندہ جمعہ ۱۳مارچ کو جامع مسجد میں نماز اداکروں ۔ بہر حال ہمارا فرض ہے کہ جسکی جیسی کچھ منزلت ہے اس کاصحیح معنی میں اعتراف کریں مجھے امید ہے کہ میر امنشاء صاف ظاہر ہوجائیگا خواجہ صاحب پر (ع)‘‘
سلطان العلوم کے ان ارشادات سے ظاہر ہے کہ آپ کو صحابہ کرام کے احترام کا کس درجہ خیال رہتاتھا۔ اسی طرح آپ کو اہل بیت اطہار سے بھی محبت تھی اور اولیاء کرام کا بڑا احترام کرتے تھے اور انکی درگاہوں پر حاضر ی دیتے تھے۔ یہاں اس موقعہ پر ایک اور واقعہ لکھا جاتا ہے کہ جس سے آصف جاہ سابع کی بندگی اور اللہ کی عظمت کا اظہار ہوتاہے ۔ میر ے خالو سید امان اللہ حسینی جو صر ف خاص مبارک کے مہتمم تھے اور کبھی کبھار حضور کی پیشی میں باریاب بھی ہوتے تھے میں نے ان سے ایک دفعہ پوچھا کہ حضور نظام چامینار پر شہادت کی انگلی اٹھا کر اس طر ح سلامی کیوں لیتے تو حضرت نے بتایا کہ یہی سوال کسی منہ چٹر ھے درباری نے حضور سے کیا ، حضور نے اسے اپنے مخصوص لہجہ میں اس کی حقیقت سمجھائی ، کیا تو پر چمِ آصفی اور تاجِ آصفی کو نہیں دیکھا کہ اس پر العظمۃ للہ لکھا ہوا نہیں ہے ، کیا تو تشہد میں رفعِ سبَّابہ نہیں کرتا ؟ سن !میرے سپاہی میر ی تعظیم کے لئے سلامی دیتے ہیں میں نے سلامی لینے کا یہ طریقہ اس لئے اختیار کیا ہے کہ اصل عظمت اللہ کے لئے ہے اسلئے اس طریقہ سے میر ی بندگی او راللہ کی عظمت کا اظہار ہوا ، انداز ہ لگایا جاسکتاہے کہ سلطان العلوم کس قدر سچے مسلمان اور اچھے اور حقیقت پسند صوفی بادشاہ تھے۔
سیاسی نظریات میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اچھا بادشاہ جمہوریت سے زیادہ بہتر ہوتاہے۔ A good King is better than democracyواقعی وہ ایک اچھے اور رعایا پرور بادشاہ تھے۔ بہ حالات موجودہ اس حقیقت کا صحیح اوربہ آسانی اندازہ کیا جاسکتاہے۔
آخیرمیں سلطان العلوم کی خدمت میں اس موقع پر میرؔ کا یہ شعر بطور سوغات پیش ہے۔
بارے دنیامیں رہو غم زدہ یاشاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلویاں کہ بہت یاد رہو
اس مختصر مقالہ کو جسمیں موضوع کے ساتھ انصاف نہ کیا جاسکا اس شعر پر ختم کیا جاتاہے
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدئہ عالم دوام ما
٭٭٭
نوٹ
اعلحضرت نواب میر عثمان علیخان نظام سابع سابق حکمران حیدرآباد کاجامعہ نظامیہ سے گہرا تعلق رہاہے اور انہیں یہ مرکز دین و دانش بہت عزیز تھا۔ مضمون بالا چونکہ مارچ ۱۹۸۳ء میں سلطان العلوم صدی تقاریب کے موقع پر ادبی اجلاس میں پڑھا گیا او ربیحد پسند کیاگیا اس لیے اس مقالہ کو شریک اشاعت کیاگیاہے۔ (مرتب)
(بشکریہ سالنامہ مجلہ انوار نظامیہ حیدرآباد ص۲۷ تا ۳۴، ۱۹۸۴ء)
٭٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) مولانا مفتی محمد رکن الدین ؒ؍ مطلع الانوار، ص۲۹،۳۰۔۴۰۵ھ، ناشر جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(۲) روزنامہ ’’صبح دکن‘‘ مورخہ ۳؍نومبر ۱۹۶۱ء حیدرآباد دکن ، اے پی
(۳) مولانا مفتی محمد رکن الدین؍ مطلع الانوار، ص۴۸، ۴۹۔۱۴۰۵، حیدرآباد دکن (اے پی)۔
٭٭٭
قرآن حکیم میں کثرت سے نہ صرف سابقہ قوموں کے حالات وواقعات کا تذکرہ کیا گیاہے بلکہ انبیاء علیہم السلام کوہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ پچھلی قوموں کے قصوں اور گزرے ہوئے واقعات اور معرکوں کویاد دلائیں چنانچہ حکم دیاگیا۔ {وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ}کیونکہ ان واقعات کی حیثیت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو یاد کرنے اوریاد دلانے ، سننے اورسنانے میں بڑی مصلحتیں اور کئی فوائد مضمرہوتے ہیں۔ان سے آگہی اور دعوت فکر وعمل ملتی ہے۔ غفلت، بیداری سے بدلتی ہے۔ سلطان العلوم کی صدی تقاریب کا انعقاد بھی اسی قبیل کا ہے جو نہایت مفید اوربامقصد سعی مشکورہے۔
ایک زوال پذیرمعاشرہ کیلئے اس قسم کے اجتماعات سدباب اورپھر اس کے احیاء وارتقاء کیلئے ضروری اور ناگزیر ہوجاتے ہیں ایسے تقاریب کا مقصد صرف ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہہ لینا نہیں ہے اور نہ ہوناچاہئیے ۔
لَیْسَ الْفَتَی مَنْ یَقُولُ کَانَ اَبِی
وَلِکِنَّ الْفَتَی یَقُولُ ھَا أنَذَا
نوجوان کی بہادری یہ کہنے میں نہیں ہے کہ میرے باپ یہ تھے، ایسے تھے، بلکہ اس کی اصل بہادری تویہ کہنے میں ہے کہ میں بھی کچھ کم نہیں ۔ موافق سلف نہ ہوں تو ناخلف ، خدمات وکارناموں میں ان کے برابرہوں تو خلف اور اگر ان کارناموں میں سلف سے بھی بازی لے جائیں تو ’’خلف الرشید‘‘ کہلاتے ہیں۔ غرض کہ اسلاف کے شاندار کارناموں کے تذکرہ کی بنیاد ہی یہ ہے کہ افراد وقوم میں جذبات عملی پیہم پیدا کئے جائیں ۔ ماضی سے حال کوسدھارتے اور سنوار تے ہوئے مستقبل کو درخشاں بنایا جائے ۔ حضرت سعدیؒ نے اسی متن میں بڑی حکمت ودانش کی بات ہمیں بتائی ’’میراث پدر خواہی علم پدر آموز‘‘باپ کی میراث اور ان کا مقام ومرتبہ چاہتے ہوتوان کا علم وہنرسیکھو اور ان جیسے مہتم بالشان کارنامے انجام دو۔ ان اشارات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ وہ یادیں ہیں جومعاشرہ کی حمیت وغیرت کو جھنجوڑتی اور جادئہ عمل پر گامزن کرتی ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے ارتقائی مراحل اس وقت تک طے نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کو اپنی منزل کا شعور نہ ہو۔ معاشرہ اپنے ارتقاء کی کس منزل ومعیار پر ہے اس کا اندازہ تو اس کے علوم وفنون اور صنعتوی سے ہی کیا جاسکتا ہے دوسرے الفاظ میں کسی قوم وملت کے استحکام اورہمہ پہلو ترقی کا راز دراصل علوم وفنون کے حصول اور ان میں مشاہدات ومہارت پیدا کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اگر ہم سلطان العلوم کے درخشاں اور حیات آفریں دور کا بالا ستیعاب مطالعہ کریں تو ذہن میںعہدِ عباسی کے زرین عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ جدید حیدرآباد کے عظیم معمار کے عظیم وفخیم کارنامے، تاریخ اسلام کے عموماً اورتاریخ دولت ِآصفیہ کے خصوصاً درخشاں ابواب ہیں۔
اصول سلطنت ہوں یاتدبیرِ مملکت ، نظم ونسق عامہ ہویا زراعت وتجارت، آب پاشی کاانتظام ہوکہ صنعتوںکا فروغ، قدیم علوم والسنہ کی تعلیم واشاعت ہوکہ عصری علوم فنون اور اَلِسنہ جدیدہ کی ترویج وتعلیم ، رعایاپروری ہو یا عام رواداری ، ادب وفنون لطیفہ ہوں یا شعر وسخن غرض کہ ہر شعبہ حیات میں سلطان العلو م کے نمایاں کارنامے رہنما اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کے ان عظیم الشان اور بیشمار کارناموںکو دیکھ کر بے ساختہ زبان پر یہ شعر آجاتاہے۔
زفرق تابہ قدم ہرکجاکہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا است
ہم اب اس امر کا جائز ہ لیتے ہیں کہ سلطان العلوم نے دینی علوم کی تعلیم واشاعت میں کیا حصہ لیا اورکسقدر سرپرستی کی؟ آصف جاہ سابع کے عہد میمنت میں تین بڑے تعلیمی ادارے تھے، جنہیں تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ دارالعلوم ، جامعہ نظامیہ، اور جامعہ عثمانیہ، ۱۸۵۶ء میں دارالعلوم قائم ہوا دارلعلوم کے قیام کے کوئی ۲۷سال بعد ۱۸۷۵ء میں جامعہ نظامیہ قائم ہوا اور جامعہ نظامیہ کے قیام کے بعد ۱۹۱۸ء میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل آیا۔
دارالعلوم، علوم دینیہ عربیہ اور السنہ شرقیہ کا پہلا کالج تھا۔ اس کا نصاب تعلیم ’’درس نظامی ‘‘تھا۔ علوم ِمتداولہ کے علاوہ دارالعلوم میں عصری ضروریات کو ملحوظ رکھا گیاتھا۔ اسکے دوسرے شعبہ میں انگریزی حساب اور مقامی زبانوں کی بھی بقدرضرورت تعلیم دی جاتی تھی۔ اس تعلیمی ادارہ سے کئی نامور اور ممتازعلماء پیداہوئے۔ لیکن جب عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوگئی تو دینیات کا پورا شعبہ جامعہ عثمانیہ میںمنتقل کردیا گیا جس سے دارالعلوم کی انفرادیت ختم ہوگئی ۔ اس طرح اس کا وہ امتیاز باقی نہیں رہا جوپہلے تھا۔
جامعہ نظامیہ :۔درس نظامی کا واحد مرکز تھا اسکے موقربانی شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ بہادر قدس سرہٗ العزیز نے ۱۲۹۲ھ میں ا س عظیم درسگاہ کو قائم فرمایا ملک کے بعض ممتاز اور بڑے بڑے علماء اسی درسگاہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ ابتداء میں یہ اہل خیرکی امداد پر چلتا رہا ۔ جب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ اعلحضرت کی تعلیم پر مقرر کئے گئے تو مدرسہ کے لئے پانچسو روپیہ ماہوا ر امدا د مقرر فرمائی اب یہاں سے شاہی سرپرستی کا دور شروع ہوتاہے۔ ۱۳۰۶ ھ میں محکمہ عالی کی طرف سے دوسوروپیہ ماہوارامداد جاری ہوئی تاآنکہ آصف سابع بھی مولانا انواراللہ کے تلامذہ میں داخل ہوئے اور جب تخت نشین ہوئے تو مدرسہ کی سالا نہ امداد میں ایک ہزار تین سو ماہوار کا اضافہ فرمایا کچھ عرصہ بعد امداد دوہزار پانچسوروپیہ کردی گئی سلطان العلوم کی شخصی سرپرستی اس کے علاوہ رہی ۔ اخیر زمانہ میں معتمد امورمذہبی کی تحریک پر آصف جاہ سابع نے ذریعہ فرمان ۱۹؍ربیع الاول ۱۳۶۷ھ م مئی ۱۹۴۸ء کے مراسلہ فینانس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جامعہ کے نام (۳)لاکھ سالانہ اور (۲)لاکھ امداد منظور ہوئی۔ مدرسہ اور بانی مدرسہ حضرت فضیلت جنگ سے سلطان العلوم کو جو تعلق خاطرتھا فرامین ذیل سے اس کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
۱)مولوی محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ بہادر اس ملک کے مشائخ عظام میں سے ایک عالم باعمل اور فاضل اجل تھے۔ اور اپنے تقدس و تورع اور ایثار نفس وغیرہ خوبیوں کی وجہ سے عامۃ المسلمین کی نظروں میں بڑی وقعت رکھتے تھے۔ وہ والدمرحوم اور میرے ، نیزدونوں بچوں کے استاد بھی تھے اورترویج علوم دینیہ کے لئے مدرسہ نظامیہ قائم کیاتھا۔ جہاں اکثر ممالک بعیدہ سے طالبان علوم دینیہ آکرفیوض معارف وعوارف سے متمتع ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب کومیں نے اپنی تخت نشینی کے بعد ناظم امور مذہبی اور صدر الصدور مقرر کیاتھا اور مظفر جنگ کا انتقال ہونے پر معین المہامی امورمذہبی کے عہد ہ جلیلہ پر مامور کیا تھا۔ مولوی صاحب نے سررشتہ امور مذہبی میں جو اصطلاحات شروع کیں وہ قابل قدرہیں۔ بلحاظ ان فیوضات کے مولوی صاحب موصوف کی وفات سے ملک و قوم کو نقصان پہونچا اور مجھ کو نہ صرف ان وجوہ سے بلکہ تلمذکے خاص تعلق کے باعث مولوی صاحب کی جدائی کا سخت افسوس ہوا۔ میں چاہتاہوں کہ ان کی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے مدرسہ نظامیہ میں دو تعلیمی وظیفے ۲۵؎ ۲۵؎ کے نام سے ہمیشہ کے واسطے قائم کئے جائیں(۱)۔
سلطان العلوم اپنے اساتذہ کابڑا ادب واحترام کرتے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقیؒ آپ کے (۲۱) سال تک استاد رہے۔ تلمیذمودب فرماتے ہیں۔
با ادب سررانگوں کردہ بہ پیش عالمے
از علومِ دیں نگر ما استفادہ کردہ ایم
درسگاہ کی شان میں ایک قطعہ موزوں فرمایا:۔
چومستی ازشراب ناب گشتہ
ہمہ تشنہ دہن سیراب گشتہ
زفیضِ بانی استاد سلطاں
ریاضِ علمِ دیں شاداب گشتہ
جامعہ کی جدید عمارت کی تقریب سنگ بنیاد کے موقع پر فرمایا:۔
قیمتِ جنس فزوں تر ہوئی بازاروں سے
دل بھی آباد ہوا دیکھ خریداروں سے
آمدِ بادبہاری نے جمایا نقشہ
خلشِ گُل بھی مٹی دیکھ لے توخاروں سے
بلبلیں اُڑتی ہیں ہو ہو کے چمن پرقرباں
رنگِ گل پھوٹ پڑا آج جو گلزاروں سے
دیکھ لے آج ذراشانِ علومِ دینی
صوتِ تبریک نمایاں ہے جو مزماروں سے
سنگ اور خشت نے بھی خوب دکھایا جوہر
صنعتِ قصر ہوئی دیکھ لے معماروںسے
شام کہتی ہے یہی صبحِ صفاسے سن لو
جگمگا یاہے فلک دیکھ لے تو تاروںسے
نہیں معلوم ہوا کیاہے جبھی تو عثماںؔ
گونج اٹھا مکتبِ انوار پرستاروں سے
۲)آصف جاہ سابع نے ایک او رفرمان مبارک میں کہا:۔
جامعہ نظامیہ کی تعلیمی حالت کو دیکھنے کیلئے بشرطِ صحت جامعہ میں آتے رہوں گا اور عرِس شریف کا اہتمام صیغہ اعراس صرفخاص مبارک سے ہوگا تاکہ اس شاگرد کو فائدہ پہونچے۔
۳)فرمایا: جامعہ کی تنظم جدید ہوگی اور اس وقت یہ جامعہ ہر قسم کی اعانت کا مستحق ہے جس کو دینے کے لئے ایک شاگرد آمادہ ہوگیاہے۔ اپنا فرض منصبی سمجھ کر زمانہ گذشتہ میں بہ شمول شاگرد کلاں (مرحوم سرکار) ہر دونے علم دین حاصل کرکے اپنے استاد کا نام دنیا میں روشن کیا جس کے مولوی صاحب مستحق تھے۔ لاشک فیہ۔
فرمایا:۔
بانی مکتب کی عثماںؔ یاد بھی آتی رہے
نغمے بھی اس ذات کے صبح ومساگاتی رہے
برسرِ قبرِ مطہر کہتا ہے سارا جہاں
آمدِفصلِ بہاری پھول برساتی رہے(۲)
۴)ذریعہ فرمان مبارک ۳؍سپٹمبر ۱۹۶۱ء یہ ہدایت جاری فرمائی۔
’’زمانہ گذشتہ سے لے کر تاایں وقت یہ جامعہ دینی درسگاہ اور مرکزعلوم مشرقی رہاہے جسکو امورسیاسی یا کسی پولٹیکل پارٹی سے کبھی تعلق نہیں رہا لہذا آئندہ بھی اس کا مسلک یہی رہے گا تاکہ آفاتِ جہاں سے یہ محفوظ رہے۔ خصوص اس حالت میں کہ اس کا مربی اور سرپرست نظام سابع ہے ایسی حالت میں وہ امور مذکور ہ کی نگرانی کرتارہے گا تاکہ اسکے اعداء یا بدخواہ کسی وقت ا س جامعہ کو پیچیدگیوں میں لاکر بدنام نہ کردے کیونکہ حالات دنیا دگرگوں ہے لہذا احترام واحتیاط کی سخت ضرورت ہے بقول
ہیچ آفت نہ رسد گوشئہ تنہائی را
غرض کہ سلطان العلوم نے اس دینی درسگاہ کی ایسی آبیاری کی کہ سار ے ہندوستان ، سمرقند وبخارا ، افغانستان اور بنگال سے طالبانِ علوم دینیہ نے اس سرچشمہ فیوض وبرکات سے فیض حاصل کیا ۔ الحمد للہ آج بھی ملک اور بیرون ملک میں اس کا فیض جاری ہے۔
امداد مدارس دینیہ:۔سلطان العلوم نے نہ صرف جامعہ نظامیہ کی سرپرستی فرمائی بلکہ مدارس دینیہ کی امداد میں فراخدلی سے حصہ لیا ان امدادی مدارس کی فہرست بڑی طویل ہے حضور نظام سابع کی اس امداد میں شیخ الاسلام حضرت فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی سفارشات کا بڑا دخل تھا۔ اس سلسلہ میں چند اہم مدارس دینیہ کے نام’’ مطلع انوار‘‘ کے حوالے سے ذیل میں دئے جاتے ہیں۔
۱۔مدرسہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف ماہانہ ایک ہزار روپیہ
۲۔اضافہ امداد مدرسہ دارالعلوم ۔ (۶)سوروپیہ ماہانہ
۳۔مدرسہ کولھاپور۔ (۲) سورروپیہ ماہانہ
۴۔ مدرسہ حفاظ خلد آباد شریف ۔ (۱۰۰) روپیہ ماہانہ
۵۔مدرسہ حفاظ مکہ مسجد۔ (۱۲۵)روپیہ ماہانہ
۶۔مدرسہ بدایون (۱۲۵)روپیہ ماہانہ
۷۔مدرسہ سبحانیہ الہ آباد (۱۰۰)روپیہ ماہانہ
۸۔مدرسہ فتح پور سیکری (دلی) پچاس روپیہ ماہانہ
۹۔مدرسہ میواڑ اودے پور (۱۲۵)روپیہ ماہانہ
۱۰۔امداد مدرسہ برار ماہوا ر و یکمشت برائے تعمیر مسجد
۱۱۔ امداد انجمن ہدایت الاسلام اور نگ آباد پچاس روپیہ ماہانہ(۳)۔
اسی طرح سلطان العلوم نے اشاعت علوم کے لئے دائرۃ المعارف ، مجلس اشاعت العلوم ، اسلامک کلچر، ندوۃ المصنفین ، جیسے کئی علمی اداروں کی مالی سرپرستی فرمائی ۔سیرۃ النبی مولانا شبلی نعمانی کی طباعت واشاعت میں بڑی بڑی امدادیںجاری کیں ۔ تراجم قرآن میں گرنقدار اعانت فرمائی ، مساجد ، خانقاہوں اور مزارات کی تعمیرمیں بڑا حصہ لیا، علماء و شعراء ، مصنفین اور مؤلفین کی قدر افزائی کی۔ اسلامی معاشرہ میں جو بگاڑ او رخرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ان کو دور کرنے کے لئے اصلاحات نافذ کئے۔
دائرۃ المعارف العثمانیہ :۔۱۸۸۸ء میں شیخ الاسلام حضرت فضیلت جنگ ، نواب عماد الملک ؒ اور ملا عبدالقیوم ؒ کی مشترکہ مساعی سے دائرۃ المعارف کاقیام عمل میںآیا۔ اس شہرہ آفاق ادارے سے اب تک ۱۵۲ قدیم نادر علمی، ادبی ، تاریخی اور ثقافتی بلندپایہ مخطوطات کی تصحیح اور تعلیقات کے ساتھ طباعت اور اشاعت کی گئی حیدرآباد کا یہ وہ ممتاز اور وقیع علمی ادارہ ہے۔ جس سے نہ صرف علوم اسلامیہ کی اشاعت ہوئی بلکہ دنیا میں اس سے ہمارے ملک کا نام روشن ہوا اور ہورہاہے۔
مجلس اشاعۃ العلوم :۔اس موقر مجلس کو بھی حضرت فضیلت جنگ بہادر نے حضور نظام سابع کی سرپرستی میں ۱۳۲۰ھ میں قائم فرمایا ، اس ادارہ کا مقصد قیام یہ ہے کہ اس کے ذریعہ علماء کی تصنیفات وتالیفات کو طبع کیا جائے چنانچہ اس ادارے سے اب تک (۱۵۰) کتب قیمہ شائع ہوچکی ہیں بیشتر حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ کی تصانیف ہیں۔
اسلامک کلچر:۔آج سے کوئی (۷۸)سال پہلے کی بات ہے کہ حیدرآباد سے اسلامی تہذیب وثقافت کو ایک انگریزی رسالہ کے ذریعہ پیش کرنے کی تجویز ملک کے ممتازعلماء اور عمایدین نے سلطان العلوم کی خدمت میں پیش کی ۔ سلطان العلوم نے اس تجویز کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس کو شرف قبولیت بخشا ۱۹۲۵ء میں نواب عماد الملک کی صدارت میں موقرا دارہ وجود میں آیا اور ۱۹۲۷ء میں مسٹر محمد پکتھال کے زیر ادارت ’’اسلامک کلچر ‘‘کے نام سے پہلا شمارہ شائع ہوا۔ مسٹر پکتھال کی وفات کے بعد مشہور مستشرق اسدوس اور ان کے بعد سید ہاشمی فرید آبادی مدیر ہوئے ان کے بعد ڈاکٹر عبدالمعید خاں صاحب پرو فیسرشعبہ عربی وناظم دائرۃ المعارف کو اس کا معتمداور اڈیٹر بنایا گیا اب یہ مجلہ پوری آب وتاب کے ساتھ شائع ہونے لگا یہ اپنے علمی معیار رکھ رکھاؤ اور مستند مواد کی بدولت بین الاقوامی شہر ت کا حامل ہے۔ مغرب ومشرق کی یونیورسٹیوں میں تحقیق کرنے والے اسکالرا س سے کافی مواد حاصل کرتے ہیں اور بیشتر محققین اپنی تحقیق میں اکثر اس کا حوالہ دیا کرتے ہیں۔ اب یہ مجلہ ثقافیہ نواب مکرم جاہ بہاد کی سرپرستی اور نواب مفخم جاہ کی صدار ت میں پابندی کیساتھ اسی آب وتاب کے ساتھ شائع ہورہاہے۔
غرض کہ یہ دینی علوم او راسلامی ثقافت کی ترویج واشاعت ابتداء ہی سے سلطان العلوم کی سرپرستی کے برکات وثمرات ہیں ۔ سلطان العلوم کی دینی علوم کی تعلیم واشاعت میں سرپرستی درا صل ان کے ذاتی ذوق وشوق اور ان میںدستگاہ کا اصل سبب یہ ہے کہ آپ کو ممتاز اوریکتائے روزگار اساتذہ میسر آئے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقیؒ ، نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی اور علامہ سید علی شوستری ۔ اس کے علاوہ شعائردینی کا آپ کو بڑ ا لحاظ وپاس تھا جب بھی آپ مکہ مسجد تشریف لے جاتے تو لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور آداب بجالاتے آپ نے اس عمل کو سختی سے روکا اور فرمایا خدا کے گھر میں بادشاہ اور فقیر دونوں برابر ہیں۔ سب کو ایک رنگ میں خدا کے حضور کھڑ ا ہونا چاہئیے ۔ سلطان العلوم کا یہ احساس وعمل اپنے اندر کسقدر حقیقت رکھتا ہے۔ اسی طرح آپ کو صحابہ کرام کے آداب واحترام کا ہر وقت خیال رہتاتھا۔ ۱۹۳۶ء میں جب آپ نے دلی کا سفر کیا تو آپ کے لئے خواجہ حسن نظامی صاحب نے سماع کا اہتمام کیا۔ حسنِ اتفاق سے وہ دن حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کا دن تھا، شمس الملۃ والدین نے خواجہ صاحب کو خط لکھا جسکا متن یہ ہے۔
’’حسن نظامی صاحب ۔ بعد نماز جمعہ ۱۸ذالحجہ کو جو قوالی کی شرکت کی دعوت دی ہے تو اس کے متعلق مجھے یہ کہنا ہیکہ یہ ٹھیک ہے مگر اس دن خلیفہ سومؓ کی شہادت بھی واقع ہوئی ہے جس کا ہم کو (اہل تسنن کو) احترام کرنا ہے جو کہ داماد و صحابی جلیل رسول تھے۔ اس لئے آئندہ جمعہ ۲مارچ کو اگر یہ مجلس قوالی مقررہوتی تو میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کی زیارت سے فارغ ہوکر بعد نماز جمعہ اس میں خوشی سے شرکت کرتا اس لئے ارادہ ہے کہ آئندہ جمعہ ۱۳مارچ کو جامع مسجد میں نماز اداکروں ۔ بہر حال ہمارا فرض ہے کہ جسکی جیسی کچھ منزلت ہے اس کاصحیح معنی میں اعتراف کریں مجھے امید ہے کہ میر امنشاء صاف ظاہر ہوجائیگا خواجہ صاحب پر (ع)‘‘
سلطان العلوم کے ان ارشادات سے ظاہر ہے کہ آپ کو صحابہ کرام کے احترام کا کس درجہ خیال رہتاتھا۔ اسی طرح آپ کو اہل بیت اطہار سے بھی محبت تھی اور اولیاء کرام کا بڑا احترام کرتے تھے اور انکی درگاہوں پر حاضر ی دیتے تھے۔ یہاں اس موقعہ پر ایک اور واقعہ لکھا جاتا ہے کہ جس سے آصف جاہ سابع کی بندگی اور اللہ کی عظمت کا اظہار ہوتاہے ۔ میر ے خالو سید امان اللہ حسینی جو صر ف خاص مبارک کے مہتمم تھے اور کبھی کبھار حضور کی پیشی میں باریاب بھی ہوتے تھے میں نے ان سے ایک دفعہ پوچھا کہ حضور نظام چامینار پر شہادت کی انگلی اٹھا کر اس طر ح سلامی کیوں لیتے تو حضرت نے بتایا کہ یہی سوال کسی منہ چٹر ھے درباری نے حضور سے کیا ، حضور نے اسے اپنے مخصوص لہجہ میں اس کی حقیقت سمجھائی ، کیا تو پر چمِ آصفی اور تاجِ آصفی کو نہیں دیکھا کہ اس پر العظمۃ للہ لکھا ہوا نہیں ہے ، کیا تو تشہد میں رفعِ سبَّابہ نہیں کرتا ؟ سن !میرے سپاہی میر ی تعظیم کے لئے سلامی دیتے ہیں میں نے سلامی لینے کا یہ طریقہ اس لئے اختیار کیا ہے کہ اصل عظمت اللہ کے لئے ہے اسلئے اس طریقہ سے میر ی بندگی او راللہ کی عظمت کا اظہار ہوا ، انداز ہ لگایا جاسکتاہے کہ سلطان العلوم کس قدر سچے مسلمان اور اچھے اور حقیقت پسند صوفی بادشاہ تھے۔
سیاسی نظریات میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اچھا بادشاہ جمہوریت سے زیادہ بہتر ہوتاہے۔ A good King is better than democracyواقعی وہ ایک اچھے اور رعایا پرور بادشاہ تھے۔ بہ حالات موجودہ اس حقیقت کا صحیح اوربہ آسانی اندازہ کیا جاسکتاہے۔
آخیرمیں سلطان العلوم کی خدمت میں اس موقع پر میرؔ کا یہ شعر بطور سوغات پیش ہے۔
بارے دنیامیں رہو غم زدہ یاشاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلویاں کہ بہت یاد رہو
اس مختصر مقالہ کو جسمیں موضوع کے ساتھ انصاف نہ کیا جاسکا اس شعر پر ختم کیا جاتاہے
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدئہ عالم دوام ما
٭٭٭
نوٹ
اعلحضرت نواب میر عثمان علیخان نظام سابع سابق حکمران حیدرآباد کاجامعہ نظامیہ سے گہرا تعلق رہاہے اور انہیں یہ مرکز دین و دانش بہت عزیز تھا۔ مضمون بالا چونکہ مارچ ۱۹۸۳ء میں سلطان العلوم صدی تقاریب کے موقع پر ادبی اجلاس میں پڑھا گیا او ربیحد پسند کیاگیا اس لیے اس مقالہ کو شریک اشاعت کیاگیاہے۔ (مرتب)
(بشکریہ سالنامہ مجلہ انوار نظامیہ حیدرآباد ص۲۷ تا ۳۴، ۱۹۸۴ء)
٭٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) مولانا مفتی محمد رکن الدین ؒ؍ مطلع الانوار، ص۲۹،۳۰۔۴۰۵ھ، ناشر جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(۲) روزنامہ ’’صبح دکن‘‘ مورخہ ۳؍نومبر ۱۹۶۱ء حیدرآباد دکن ، اے پی
(۳) مولانا مفتی محمد رکن الدین؍ مطلع الانوار، ص۴۸، ۴۹۔۱۴۰۵، حیدرآباد دکن (اے پی)۔
٭٭٭
0 Comments: