طاہر اللہ خان اشرفی
خلیفئہ حضور شیخ الاسلام صاحب قبلہ ، محبوب نگر ، تلنگانہ
حضرت شیخ الاسلام کا دورئہ محبوب نگر
من علینا ربنا اذ بعث محمدا
ایدہ بایدہ ایدنا باحمدا
ارسلہ مبشرا ارسلہ ممجدا
صلوا علیہ دائما صلوا علیہ سرمدا
اللہم صل علی سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد کما تحب و تر ضی بان تصلی علیہ
مدنی فائونڈیشن ہبلی کی کرم فرمائی ہے کہ انہوں نے محبوب نگر والوں کو حضور شیخ الاسلام کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرنے کا موقع عطا فرمایا ہے۔
ضلع محبوب نگر صوبہ تلنگانہ ،شہر حیدرآباد سے سو(100) کیلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے ۔حیدرآباد سے محبوب نگر کااتنا گہرا تعلق ہے کہ وہاں کی سرگرمیوں اور حالات کا اثر محبوب نگر پر بھی پڑتا ہے۔1980ء سے پہلے حیدر آباد کے حالات کچھ اس طرح تھے ۔
پالن حقانی گجراتی ایک بد عقیدہ ، اس کا حیدرآباد میں بیانات کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ تاریخی مسجد’’مکہ مسجد‘‘ میں اس کے جلسے ہونے لگے ۔سنی عوام بھی ان جلسوں میں شریک ہو رہی تھی۔حیدرآباد میں بد عقیدگی کے آثار نمودار ہوچکے ، عقائد اہل سنت ومعمولات اہل سنت کا مذاق اڑایا جانے لگا ، لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے کہ کیاصحیح ہے اور کیا غلط۔تب حیدرا ٓبا د میں اس فتنہ کے سد باب کے لیے حضور شیخ االاسلام کو مدعو کیا گیا ۔(تفصیل کے لیے ڈاکٹر فرحت علی صدیقی حیدرآبادی کا مضمون’ ’ حضرت شیخ الاسلام کا علمی و عرفانی دورئہ حیدر آباد‘ ‘
کا مطالعہ کریں جو اسی مجلہ میں شامل ہے)
جب آپ کے علمی و نورانی خطابات کا سلسلہ حیدرآباد کے مختلف مقامات پر شروع ہوا تو لوگ آ پ کے خطابات عالیہ سننے کے لیے دورو دراز سے جوق در جوق آنے لگے۔ آپ کے خطابات کی یہ خصوصیت اور تاثیر ہے کہ سننے والا متاثر ہوے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ آپ کے خطابات عالیہ کے فیوض و برکات سے عقیدے سنورنے لگے ، شکوک و شبہات کا ازالہ ہوااور عشق مصطفی سینے میں موجیں مارنے لگا۔
حضو ر شیخ الاسلام کا ایک قول:
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا تھا : ’’ ایک عالم اگر رات بھر وعظ و نصیحت کرے تب بھی سامعین کے دلوں پر وہ اثر نہیں ہوتا جو عارف کے چند جملے دل پر اثر کرجاتے ہیں‘‘۔یہ قول خود آپ کی ذات اقدس پر صادر آتا ہے ۔ یہ ایک عارف ہی کی زبان کا اثر تھا کہ اہل سنت کا وقار حیدرآباد میں بحال ہوا، کئی گمراہ صحیح العقیدہ سنی ہوے اور توبہ کرکے آپ کے دست اقدس پر سلسلہ قادریہ ، چشتیہ ، اشرفیہ میں داخل ہوے ۔
دورئہ حیدرآباد کے وقت آپ کی ملاقات علامہ ابو الوفا افغانی حیدر آبادی سے ہوی تو علامہ صاحب نے حضرت سے فرمایا : ’’ آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، آپ تو فاتح حیدر آباد ہیں‘‘۔اسی طرح حضرت مولانا غلام نبی شاہ صاحب قبلہ حیدر آبادی نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ ’’ اگر حضور شیخ الاسلام حیدرآباد نہ آتے تو سنیت کا بڑا نقصان ہوتا ‘‘۔
جآء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
حضو ر شیخ الاسلام کی محبوب نگر آمد :
عالم اسلام کی ممتاز و قدآور شخصیت شہرئہ آفاق عالم دین جن کے تبلیغی دورے کئی بر اعظموں کو محیط ہیں ، جن کا پروگرام ملنا بڑی خوش نصیبی اور سعادت مندی کی بات ہے ۔پالن حقانی کا فتنہ محبوب نگرتک پھیل چکا تھا ، اس کا بیان یہاں بھی ہونے لگا ۔ جس طرح حیدرآباد میں اس فتنہ کا خاتمہ حضرت شیخ الاسلام سے ہوا اسی طرح یہاں بھی بدعقیدگی سے حفاظت کے لیے حضرت شیخ الاسلام کو مدعو کیاگیا ۔مولانا عبد الکریم صاحب خطیب و امام جامع مسجد و ناظم مدرسہ مفتاح العلوم محبوب نگر اور جناب محمد حمید الدین قادری کی کوششوں سے پروگرام ملا ۔ الحمد للہ پہلی مرتبہ ۱۹۷۷ ء میں حضور شیخ الاسلام کا قدم مبارک سر زمین محبوب نگر پر پڑا جس کی بدولت اہلیان محبوب نگر کو علم و عرفان کی بارش میں سر شار ہونے کا موقع ملا۔ ؎
اپنے چمن کی بات نہیں اخترؔ وہ جہاں بھی جا پہونچیں
ہر شاخ خوشی سے جھوم اٹھے ہر پھول غزل خواں ہو جائے
بد مذہبوں کومناظرہ کی دعوت :
حضرت عصرسے پہلے پہونچ گئے ، حضرت کا قیام مدرسہ مفتاح العلوم میں تھا ۔حضر ت کی آمد سے پہلے بد مذہب علماء اور ان کے ذمہ داروں کو تحریر بھیج دی گئی تھی کہ اگر کوئی عقائد اہل سنت یا کسی بھی مسائل پر بات کرنا ہو تو عصر سے مغرب کے درمیان آئیں ۔ مگر کوئی نہیں آیا ۔اس طرح حضرت کی آمد ہی سے سنیت کی فتح اور حقانیت کا ثبوت مل گیا۔
دارالعلوم کورم پیٹھ کا معائنہ:
ُُمحبوب نگر سے 15کیلو میٹرپہلے ’جڑچرلہ‘ میںاہل سنت و جماعت کا قدیم مدرسہ دار العلوم کورم پیٹھ واقع ہے ۔ یہاں ظہر کے وقت حضرت کی آمد ہوی، مدرسہ میں علماء و مشائخ نے حضرت کا شاندار استقبال کیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوگیا تو حضرت نے فرمایا کہ آپ حضرات میں سے کوئی امامت کریں لیکن تمام حضرات نے یہ خواہش ظاہر کہ آپ امامت فرمائیں، آپ نے فرمایامیں مسافر ہوں ، اس کے باوجود تمام لوگ اصرار کرنے لگے تو حضرت نے نماز سے پہلے مسافر امام کے پیچھے اقتدا کرنے کا مسئلہ بتا یا اور امامت فرمائی۔
بد مذہبوں سے دوری اختیار کرنے کا عملی درس:
نماز ظہر کے بعد حضرت کی خدمت میں کتاب الرائے (معائنہ رجسٹر)پیش کی گئی تو آپ نے اس کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ اس میں کشن پرسا د اور چند بد مذہبوں کی تحریریں بھی موجود ہیں تو آپ نے اس کتاب میں اپنی تحریر لکھنا گوارا نہیں کیا۔جب وجہ دریافت کی گئی تو حضرت شیخ الاسلام نے فرمایا کہ بد مذہبوں کی تحریر وں کے ساتھ میں اپنی تحریر لکھنا گوارا نہیں کرتا اس لیے کہ ’’کافروں سے جان و مال کا نقصان ہوتا ہے اور بد مذہبوں سے ایمان و عقیدہ بگڑنے کا خطرہ رہتا ہے‘‘ ۔
اپنے اس عمل سے حضرت شیخ الاسلام نے حاضرین کو یہ درس دیا کہ ایمان کی سلامتی کے لیے بد مذہبوں کی صحبت سے دور رہنا بے حد ضروری ہے ورنہ ان کی بد عقیدگی کے اثرات ان کے ساتھ رہنے والوں پر یقینا اثر انداز ہوتے ہیں۔
محبوب نگر میں جملہ خطابات :۔
حضور شیخ الاسلام کی دو مرتبہ محبوب نگر تشریف آوری ہوی ۔پہلی مرتبہ ۱۹۷۷ ء میں اور دوسری دفعہ ۲۱؍نومبر ۲۰۰۰ ء ۔آپ کے ان دو دوروں میں جملہ تین خطابات ارشاد فرمائے جو اپنی مثال آپ ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی صحبت میںجو دو سال رہنے کا موقع ملا وہ میری زندگی کا سرمایہ ہے ۔ اسی طرح اہلیان محبوب نگر کو دور حاضر کے امام ہمام ، غوث و خواجہ کے سچے وارث کی صحبت میں بیٹھنے اور اور فیوض و برکات سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا اور یہ لمحات ہماری زندگی کے قیمتی لمحات ہیں۔ ؎
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
محبوب نگر میں پہلا خطاب:
آپ کا پہلا خطاب ۱۹۷۷ ء میں مدینہ مسجد محبوب نگر میں ہوا ۔ مدینہ مسجد محبوب نگر کی ایک بڑی مسجد ہے ، کثیر مجمع آپ کا خطاب سننے کے لیے جمع ہوا۔خطاب کا عنوان تھا ’’قد جاء کم من اللّٰہ نور ‘‘ جسے آپ نے سرنامئہ بیان قرار دیا ۔اپنے منفرد انداز میں حضرت نے خطاب کے شروع میں اپنے اشعار سے سامعین کو نوازتے ہوے معقولات و منقولات اور تحقیق و تدقیق کی روشنی میں علمی نکات بیان فرمائے ۔سامعین کی کیفیت عجیب تھی ، سامعین دم بخود رہ گئے کہ یہ بول رہے ہیں یا کوئی نورانی طاقت انہیں بولوارہی ہے!!
نور کے حوالے سے فرمایا کہ کائنات کی سب سے پہلی تخلیق نور مصطفی ﷺ ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ میں نور آنے کا ذکر ہے یعنی آنے والا نور قدسی ہے ،لباس بشر میں آنے سے ہماری طرح بشر نہیںاور ’’قل انماانا بشر مثلکم ‘‘کے مخاطب کافر ہیں مومن نہیں ۔ بشر تو مانا جاتاہے مگر بشر کی اصرار نہیں کی جاتی ۔
نور کی حقیقت کو بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں رسول اکرم ﷺکے تین لباس ہیں۔ (۱)لباس بشری (۲) لباس ملکی (۳) لباس حقیقی۔ نور کی اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے حضرت نے معراج کے واقعہ کی مثال دی ۔حضور نبی اکرم ﷺسفر معراج کے وقت مکہ سے آسمان تک لباس بشری میں تھے پھر آسمان سے سدرۃ المنتہیٰ تک لباس ملکی میں اور وہاں سے لباس حقیقی میں ۔
حضرت مضمون کے ہر گوشے پر اس طرح مکمل روشنی ڈالتے ہیںکہ کئی اعتراضات کے جواب بھی دے دیتے ہیں۔آپ نے فرمایا جب حضور سدرہ پر پہونچے تو جبرئیل نے عرض کیاحضور آپ آگے جائیں میں اب اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا ورنہ ’’فرغ تجلی بسوزد پرم‘‘۔یہاں پر آپ نے ایک اعتراض کاجواب دیاکہ دیکھو جبرئیل ملائکہ کے سردار ہیں ، روح الامیں ہیں ، روح الامیں صاحب سدرہ نبی کو اپنی طرح نہیں سمجھے تو اب اگر دو ٹانگ والا جانور نبی کو اپنی طرح سمجھے تو اس کے دماغ کی خرابی نہیں تو اور کیا ہے!!!
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میلاد شریف اور معراج مصطفی ﷺ کے منانے سے نبی کی یاد آتی ہے اس لیے ایسا ذکر جس سے نبی کی یاد ٓئے وہ حرام ہے ۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوے آپ نے ارشاد فرمایا عبادت اسلامیہ پر غور کرو اور جو بھی عبادت دیکھو تمہیں یاد رسول کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔نماز جیسی افضل عبادت بھی رسول اللہ ﷺ پر سلام بھیجے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے ۔
اب رسول کو بھولیں تو کیسے بھولیں ! ہاں ایک طریقہ ہے بھول جانے کا ، اگر کسی کوشوق ہو بھولنے کاتو نسخہ بتادوں وہ یہ ہے کہ کافر ہوجائو! مومن رہنا ہے تو یاد کرنا ہی پڑے گا۔
میلاد مصطفی کا ذکر کرتے ہوے آپ نے فرمایا حدیث شریف میں ہے ’’لولاک لما خلقت الدنیا‘‘ ۔ اے محبوب تجھ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو آسمان کا شامیانہ نہ لگاتا ، چاند و سورج کے قندیل روشن نہ کرتا ۔ اے محبوب آپ کی میلاد مقصود تھی اس لیے زمین کا فرش بچھا دیا ، اے محبوب آپ کی میلاد مقصود تھی اس لیے آبشار کے نغمے جاری کردیے ، کائنا ت کو سجا دیا ، ساری دنیا کو بنا دیا اس لیے میں کہتا ہوں یہ زمین میلاد والی ہے ، یہ آسمان بھی میلاد والا ہے اور یہ چاند و سورج بھی میلاد والے اور ستارے بھی میلاد والے ۔ اگر کوئی میلاد سے اختلاف کرے تو میں یہ نہیں کہتاکہ اتفاق کرو مگر اتنی تو گذارش کرونگا کہ کم از کم اس میلاد والی زمین کو چھوڑ دے اور اس میلاد والے آسمان سے باہر نکل جائے۔
آخر میں نور کے جلووں کا ذکر یوں فرمایا : میرے رسول ﷺ کے نورسے کتنے اولیاء کرا م روشن ہوگئے ۔کتنے ابدال روشن ہوگئے یہ تم مجھ سے مت پوچھو یہ خواجہ جمیری سے پوچھو، غوث جیلاں سے پوچھو کہ سرکار یہ مقام غوثیت آپ کو کہاں سے ملا ہے؟ جا ئو محبوب الٰہی سے پوچھو ، امام اعظم سے پوچھو، فاروق اعظم سے پوچھو ،عثمان غنی سے پوچھو اور صدیق اکبر سے پوچھو کی یہ مقام صدق وصفا آپ کو کہاں سے ملاہے؟ تو وہ یہی کہینگے ؎
ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے
چاند جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے
دوسری مرتبہ محبوب نگر آمد:
حضور شیخ الاسلا م کا پروگرام لینے کے لیے اہلیان محبوب نگر مسلسل پانچ سال سے کوشش میں تھے اور کئی اصحاب بیعت کے لیے منتظر تھے کہ حضرت کب تشریف لائینگے۔کاوشیں کامیاب ہویں اور 21 نومبر 2000ء کی تاریخ محبوب نگر والوں کے لیے طے کی گئی۔سارے شہر میں آپ کی آمد کی دھوم تھی کہ نبی کے گھرانے کا شہزادہ تشریف لانے والا ہے۔ جلوس کے ساتھ حضرت کا شاندار استقبال ہوااور حضرت کا قیام سید ممتاز علی اشرفی خیلفئہ حضور شیخ الاسلام کے مکان پر ہوا۔
نماز مغرب کی امامت :
شہر کی بڑی مسجد ’مدینہ مسجد‘ میں حضور شیخ الاسلام نے نماز مغرب کی امامت فرمائی ۔ مسجد جمعہ کا منظر پیش کررہی تھی ۔نماز کی ادائیگی کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں حضرت کے دست اقدس پر لوگ داخلِ سلسلہ اشرفیہ ہوے۔
محبوب نگر میں دوسرا خطاب :
2000 ء کو ٹائون ہال گراونڈ محبوب نگر میںایک عظیم الشان جلسہ کو مخاطب فرمایا ۔
اس آیت کریمہ کو سرنامئہ بیان قرار دیا ’’قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ ‘‘۔ خطاب سننے کے لیے دیگر ریاستوں اور اضلاع سے آئے ہوے تھے ۔ ایک وسیع میدان تنگ دامنی کا شکوہ کر رہا تھا ۔جیسے ہی حضرت کرسیِ خطابت پر جلوہ افروز ہوے تو مجمع پر خاموشی چھا گئی ۔اور عالمانہ و عارفانہ انداز میں آپ نے خطاب فرما یا ۔وہ ایمان افروز خطاب آ ج بھی سامعین کے ذہنوںمیں محفوظ ہے۔
اس خطاب میں آپ نے فرما یا : اگر تم خدا سے محبت کرنا چاہتے ہوتو رسول اکرم ﷺ کی اتباع کرو ، ان کے پیچھے چلو ، خدا کی محبت کو بلانے والے اس آئینے کی طرف چلو جدھر خدا کے جلوے نظر آرہے ہیں کیونکہ مرکز بنا گیا ہے ذات محمد رسول اللہ کو۔۔
نبی کی اتباع بھی فرض ہے اور اطاعت بھی فرض ہے ۔’’رسول کے اقوال دیکھنا ہے تو محدثین کی کتابوں میں دیکھو اور رسول کے افعال دیکھنا ہو تو صالحین کے کردار میں دیکھو۔اللہ تعالی نے رسول کے اقوال و افعال کو بچانے کی ذمہ داری لی ہے محدثین کی کتابوں میں اقوال محفوظ ہیں اور صالحین کے کردار میںرسول کے افعال محفوظ ہیں ۔جو محدثین کی کتابوں سے دور ہو وہ نبی کے اقوال سے دور ہے اور جو صالحین کی صحبت سے دور ہو وہ نبی کے افعال سے دور ہے‘‘۔
جائز و ناجائز کا فلسفہ:
آپ فرماتے ہیں: ’’ اسلام ہر جائز کام کرانے نہیں آیا بلکہ ہر نا جائز کام سے بچانے آیا ہے ‘‘۔نا جائز کی لسٹ بن چکی ہے جائز کی لسٹ نہیں بنی ۔چند لوگ کہتے ہیں یہ نا جائز ہے وہ نا جائز ہے ، فاتحہ نا جائز ، عرس نا جائز وغیرہ وغیرہ۔اگر یہ نا جائز ہے تو نا جائز کی لسٹ میں دکھائو؟ اس لیے کہ نا جائز کی لسٹ بن چکی ہے جائزکی لسٹ نہیں بنی ۔روکنے کی دلیل چاہیے کرنے کے لیے نہیں ، یہ جاہل کرنے کی دلیل مانگتے ہیں! جو چیز نا جائز کی لسٹ میں نہیں ہے وہ جائز ہے ۔
مسجد و مدرسہ کا سنگ بنیاد :
خطاب کے دوسرے دن 22نومبر 2000ء کی صبح محبوب نگر سے 60کیلو میٹردور نارائن پیٹھ کے لیے تشریف لے گئے ۔نا رائن پیٹھ کولم پلی میں حضرت سید شاہ احمد قتال حسینی اشرفی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مقدس ہے جو مرجع خلائق ہے درگاہ کے سجادہ نشین حضرت سید شاہ جلال حسینی اشرفی دامت برکاتہم العالیہ کی دعوت پر حضور شیخ الاسلام وہا ں تشریف لے گئے تھے ۔
کولم پلی نارائن پیٹھ میں حضرت شیخ الاسلام کے دست اقدس سے’’ مسجد بلال‘‘ اور’’ جامعہ اشرفیہ‘‘ کی سنگ بنیاد ڈالی گئی۔اس تقریب میں تقدس مآب الحاج حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی مد ظلہ العالی سجادہ نشین گوگی شریف اور حضرت سید ابراہیم شاہ قادری قدیری صاحب مد ظلہ العالی ہلکٹہ شریف بھی موجود تھے ۔
اہل سنت کانفرنس :
اسی دن نارائن پیٹھ میں مسجد و مدرسہ کی سنگ بنیا د کے بعدعظیم الشان اعلی پیمانے پر اہل سنت کانفرنس کاانعقاد ہو ا۔وسیع و عریض میدان کو خوبصورت پنڈال اور رونق افروز اسٹیج سے سجا یا گیا تھا ۔نارائن پیٹھ کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ کانفرنس کی صدارت حضور شیخ الاسلام صاحب قبلہ نے فرما ئی اور صدارتی تقریر بھی فرمائی۔کانفرنس میں مقامی خانقاہوں کے سجادگان کے علاوہ علامہ مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ حیدرآبادبھی مہمان مقرر کے طور پر شریک تھے ۔
اس کانفرنس میں حضرت شیخ الاسلام نے آیہ کریمہ ’’ ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جائوک‘‘ کو سرنامئہ بیان قرار دیا ۔ آپ نے فرمایا : اس آیت میں اس ظلم کی بات ہے جو انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔قوانین خداوندی کا جوپابند نہیں ہے وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے ۔ظلم کی دوسری تعریف یہ ہے کہ اگر کسی کو اس کے مقام سے ہٹایا تو یہ بھی ظلم ہے ۔ظلم کرنے والوں کے لیے حکم ہورہا ہے کہ میرے محبوب کی بارگاہ میں جائو۔ایسی بارگا ہ میں جانے کا حکم ہے جوخدا و رسول دونوں کی بارگاہ ہے۔جب رسول مغفرت قبول کرلیں تو اللہ بھی توبہ قبول کر نے والا ہے ۔اس کے بعد آپ نے اسی آیت سے یہ ثابت کیا کہ ’’اولیا ء اللہ کی بارگا ہوں میں حاضری دینا گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے ‘‘۔
محبوب نگرمیں آپ کے ورود مسعود کے برکات:
محبوب نگر میں آپ کی آمد کی وجہ سے سنیت کو خوب فروغ ملا ، آپ کے ذریعے غوث العالم حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ سے وابستہ ہونے کی سعادت حاصل ہوی۔ آج محبوب نگر میںسیکڑوں کی تعدادمیں غلامان حضور شیخ الاسلام موجود ہیں ۔ الحمد للہ شریعت مصطفی کے مطابق اپنی زندگی گذار رہے ہیں اور محدث اعظم مشن کے بینر تلے دینی و دنیوی صلاح و فلاح کے کام انجام دے رہے ہیں۔محبوب نگر والوں پر حضرت کی مزید کرم فرمائی یہ ہوی کہ 9؍مارچ 2014ءکو جناب سید ممتاز علی اشرفی اور مجھ فقیر طاہر اللہ خان اشرفی کو خلافت سے نوازا۔
محبوب نگر میں محدث اعظم مشن کا قیام:
حضور شیخ الاسلام کی قائم کردہ عالمی سطح کی تنظیم بنام’’ محدث اعظم مشن ‘‘جس کی شاخیں دنیا کے کئی ممالک میں قائم ہیں۔محبوب نگر میں اس کا قیام 2010 ء میں ہوا اور مشن کی آفس مسجد صالحین کی پہلی منزل نزد نیو ٹائون محبوب نگر میں واقع ہے۔
مشن کی چند کارکردگیاں یہ ہیں۔(۱)مشن کے تحت ہر اتوار کو ہفتہ واری ’’درس تفسیر اشرفی‘‘۔بعد نماز مغرب تا عشاء مسجد رحمت میںمنعقد کیا جاتا ہے جس کو مولانا سید خواجہ معز الدین اشرفی خلیفئہ حضور شیخ الاسلام دیتے ہیں۔ (۲)بیت المال کا قیام۔ اس کے تحت غریب و نادار لڑکیوں کی شادی اور وقتاًفوقتاً غریبوں کے علاج و معالجہ اورمیڈیکل کیمپ کا انعقاد ہوتا ہے۔ (۳)سالانہ سنی اجتماع ۔ مشن کے تحت ہر سال ضلعی سطح پر ایک روزہ سنی اجتماع کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دینی محافل کابھی انعقاد ہوتا ہے جس سے نوجوانوں کو دینی علوم وشرعی مسائل سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
الحاصل :۔
محبوب نگر میں جتنے بھی اشرفی ہیں وہ سب شیخ الاسلام کے فیض یافتہ ہیں ، خاص کرم ہے آپ کا ۔ اور محبوب نگرکے گلشنِ سنیت میں جو بہار ہے وہ مدنی سرکار کا فیض ہے ، اس مرشد کامل کے دامن کرم سے وابستگی کا ثمرہ ہے کہ ہمارے ایمان و عقیدے محفوظ ہیں ، الحمد للہ ۔
رب ذوالجلال کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ ہم اورہمارا شہر ہر طرح کے فتنہ و فساد سے محفوظ رہے اور ہم اور ہماری نسلیں اہل سنت و جماعت پرقائم رہ کر دین و سنیت کی خدمت کرتے رہیں اور اشرفی فیضان سے مالامال ہوتے رہیں ۔
0 Comments: