یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ حنین سے بھاگنے والی کفار کی فوجیں کچھ تو اوطاس میں جا کر ٹھہری تھیں اور کچھ طائف کے قلعہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اوطاس کی فوجیں تو آپ پڑھ چکے کہ وہ شکست کھا کر ہتھیار ڈال دینے پر مجبورہو گئیں اور سب گرفتار ہو گئیں۔ لیکن طائف میں پناہ لینے والوں سے بھی جنگ ضروری تھی۔ اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حنین اور اوطاس کے اموال غنیمت اور قیدیوں کو ''مقام جعرانہ'' میں جمع کرکے طائف کا رخ فرمایا۔
طائف خود ایک بہت ہی محفوظ شہر تھا جس کے چاروں طرف شہر پناہ کی دیوار بنی ہوئی تھی اوریہاں ایک بہت ہی مضبوط قلعہ بھی تھا۔ یہاں کا رئیس اعظم عروہ بن مسعود ثقفی تھا جو ابو سفیان کا داماد تھا۔ یہاں ثقیف کا جو خاندان آباد تھا وہ عزت و شرافت میں قریش کا ہم پلہ شمار کیا جاتا تھا ۔کفار کی تمام فوجیں سال بھر کا راشن لے کر طائف کے قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اسلامی افواج نے طائف پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا مگر قلعہ کے اندر سے کفار نے اس زور و شور کے ساتھ تیروں کی بارش شروع کر دی کہ لشکر اسلام اس کی تاب نہ لا سکا اور مجبوراً اس کو پسپا ہونا پڑا۔ اٹھارہ دن تک شہر کا محاصرہ جاری رہا مگر طائف فتح نہیں ہو سکا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جنگ کے ماہروں سے مشورہ فرمایا تو حضرت نوفل بن معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ''لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی لیکن اگر چھوڑ دی جائے تو بھی اس سے کوئی اندیشہ نہیں ۔'' یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے محاصرہ اٹھا لینے کا حکم دے دیا۔(1)(زرقانی ج۳ ص۳۳)
طائف کے محاصرہ میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے اورکل بارہ اصحاب شہید ہوئے سات قریش،چار انصار اور ایک شخص بنی لیث کے۔ زخمیوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے عبداﷲ بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے یہ ایک تیر سے زخمی ہو گئے تھے۔ پھر اچھے بھی ہو گئے، لیکن ایک مدت کے بعد پھر ان کا زخم پھٹ گیا اور اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اِسی زخم سے ان کی وفات ہو گئی۔ (1) (زرقانی ج۳ ص۳۰)
0 Comments: