یہ تیرہ آدمیوں کا ایک وفد تھا جو اپنے مالوں اور مویشیوں کی زکوٰۃ لے کر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مرحبا اور خوش آمدید کہہ کر ان لوگوں کا استقبال فرمایا ۔اوریہ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنے اس مال زکوٰۃ کو اپنے وطن میں لے جاؤ اور وہاں کے فقرا و مساکین کو یہ سارا مال دے دو۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم اپنے وطن کے فقراء و مساکین کو اس قدر مال دے چکے ہیں کہ یہ مال ان کی حاجتوں سے زیادہ ہمارے پاس بچ رہا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی اس زکوٰۃ کو قبول فرما لیا اور ان لوگوں پر بہت زیادہ کرم فرماتے ہوئے ان خوش نصیبوں کی خوب خوب مہمان نوازی فرمائی اور بوقت رخصت ان لوگوں کو اکرام و انعام سے بھی نوازا۔ پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہاری قوم میں کوئی ایسا شخص باقی رہ گیا ہے؟ جس نے میرا دیدار نہیں کیا ہے ۔ان لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ ایک نوجو ان کو ہم اپنے وطن میں چھوڑ آئے ہیں جو ہمارے گھروں کی حفاظت کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس نوجوان کومیرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے وطن پہنچ کر اس نوجوان کو مدینہ طیبہ روانہ کر دیا۔ جب وہ نوجوان بارگاہ عالی میں باریاب ہوا تو اس نے یہ گزارش کی کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے میری قوم کی حاجتوں کو تو پوری فرما کر انہیں وطن میں بھیج دیا اب میں بھی ایک حاجت لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو گیا ہوں اور امیدوار ہوں کہ آپ میری حاجت بھی پوری فرما دیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے کہا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں
اپنے گھر سے یہ مقصد لے کر نہیں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے کچھ مال عطا فرمائیں بلکہ میری فقط اتنی حاجت اور دلی تمنا ہے جس کو دل میں لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بخش دے اور مجھ پر اپنا رحم فرمائے اور میرے دل میں بے نیازی اور استغناء کی دولت پیدا فرما دے۔ نوجوان کی اس دلی مراد ا ور تمنا کو سن کر محبوبِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اس کے حق میں ان لفظوں کے ساتھ دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ وَاجْعَلْ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ اے اﷲ! عزوجل اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اس کے دل میں بے نیازی ڈال دے۔
پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس نوجوان کو اس کی قوم کا امیر مقرر فرما دیا اور یہی نوجوان اپنے قبیلے کی مسجد کا امام ہو گیا۔(1) (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۴)
0 Comments: