یہ نجران کے نصاریٰ کا وفد تھا۔ اس میں ساٹھ سوار تھے۔ چوبیس ان کے شرفا اور معززین تھے اور تین اشخاص اس درجہ کے تھے کہ انہیں کے ہاتھوں میں نجران کے نصاریٰ کا مذہبی اور قومی سارا نظام تھا۔ ایک عاقب جس کا نام ''عبدالمسیح'' تھا دوسرا شخص سید جس کا نام ''ایہم'' تھا تیسرا شخص ''ابو حارثہ بن علقمہ'' تھا۔ ان لوگوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بہت سے سوالات کئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے جوابات دئیے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ پر گفتگو چھڑ گئی۔ ان لوگوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنواری مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے
اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جس کو ''آیت مباہلہ'' کہتے ہیں کہ
اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۵۹﴾اَلْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الْمُمْتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾فَمَنْ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ ۟ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۱﴾ (1)
بےشک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام )کی مثال اﷲ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے انکو مٹی سے بنایا پھر فرمایا ''ہو جا'' وہ فوراً ہو جاتا ہے (اے سننے والے) یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تم شک والوں میں سے نہ ہونا پھر (اے محبوب)جو تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اسکے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو پھر ہم گڑگڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ڈالیں۔(آل عمران)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان لوگوں کو اس مباہلہ کی دعوت دی تو ان نصرانیوں نے رات بھر کی مہلت مانگی۔ صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حسن، حضرت حسین،حضرت علی، حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے کاشانہ نبوت سے نکل پڑے مگر نجران کے نصرانیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے کا اقرار کرکے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے صلح کر لی۔ (2)
(تفسیر جلالین وغیرہ)
0 Comments: