عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کرلیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں
نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِشام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چرچا تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو غلط سمجھ کر نظر انداز کردینے کی بھی کوئی و جہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔
لیکن جیسا کہ ہم تحریر کرچکے ہیں کہ اس وقت حجازِ مقدس میں شدید قحط تھا اور بے پناہ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی ان وجوہات سے لوگوں کو گھر سے نکلنا شاق گزر رہا تھا۔ مدینہ کے منافقین جن کے نفاق کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔مگر ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامان جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھاکیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مفلوک الحال اور پریشان تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمام قبائل عرب سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔ اس طرح اسلام میں کسی کا رخیر کے لیے چندہ کرنے کی سنت قائم ہوئی۔
۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب ثم غزوۃ تبوک،ج۴،ص۶۸۔۷۲
0 Comments: