مسئلہ:۔مسجد کو چونے اور گچ سے منقش کرنا جائز ہے اور سونے چاندی کے پانی سے نقش و نگار بنانا درست ہے جب کہ کوئی شخص اپنے مال سے ایسا کرے مسجد کے وقف کے مال سے متولی کو ایسے نقش و نگار بنوانے کی اجازت نہیں ہے لیکن بعض مشائخ کرام دیوار قبلہ میں نقش و نگار بنوانے کو مکروہ بتاتے ہیں کہ نمازی کا دل ادھر متوجہ ہوگا او ردھیان بٹے گا ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۱۹)
مسئلہ:۔مسجد میں کھانا سونا معتکف کے لئے جائز ہے غیر معتکف کے لئے کھانا سونا مکروہ ہے اگر کوئی شخص مسجد میں کھانا یا سونا چاہتا ہو تو اس کو چاہے کہ اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو اور کچھ ذکر الہٰی کرے یا نماز پڑھے اس کے بعد مسجد میں کھائے اور سوئے ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
ہندوستان میں عام طور پر یہ رواج ہے کہ لوگ مسجد کے اندر روزہ افطار کرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں اگر خارج مسجد کوئی ایسی جگہ ہو جب تو مسجد میں نہ افطار کریں ورنہ مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی نیت کرلیں اب افطار کرنے میں کوئی حرج نہیں مگراسکالحاظ ضروری ہے کہ مسجد کے فرش اور چٹائیوں کو کھانے پانی سے آلودہ نہ کریں۔ (بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۲۰)
مسئلہ:۔مسجد کو راستہ بنانا مسجد میں کوئی سامان یا تعویذ وغیرہ بیچنا یا خریدنا جائز نہیں۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔مسجد میں دنیا کی باتیں کرنی منع ہیں مسجد میں دنیاوی بات چیت نیکیوں کو اس طرح کھالیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا ڈالتی ہے یہ جائز کلام کے متعلق ہے ناجائز کلام کے گناہ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے ۔
مسئلہ:۔مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے گرمی کی وجہ سے مسجد کی چھت پر جماعت کرنا بھی مکروہ ہے ۔ ہاں اگر نمازیوں کی کثرت اور مسجد میں تنگی ہو تو چھت پر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۲)
جیسا کہ بمبئی اور کلکتہ میں مسجد کی تنگی کی وجہ سے چھت پر بھی جماعت ہوتی ہے۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۱۲۱)
مسئلہ:۔عظمت اور احترام کے لحاظ سے سب سے بڑا درجہ مسجد حرام یعنی کعبہ مقدسہ کی مسجد کا ہے پھر مسجد نبوی کا پھر مسجد بیت المقدس کا پھر جامع مسجد کا پھر محلہ کی مسجد کا پھر سڑکوں کی مسجدوں کا۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔مسجدوں کی صفائی کے لئے ابابیلوں اور چمگادڑوں وغیرہ کے گھونسلوں کو نوچ کر پھینک دینا جائز ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔مسجدوں میں جوتا پہن کر داخل ہونا مکروہ ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
یہ اس وقت ہے جب کہ جوتوں میں کوئی نجاست نہ لگی ہو اور اگر جوتوں میں نجاست لگی ہو تو ان ناپاک جوتوں کو پہن کر مسجد میں داخل ہونا سخت حرام ہے۔
مسئلہ:۔مسجد میں ان آداب کا خاص طور پر خیال رکھیں (۱)جب مسجد میں داخل ہو تو سلام کرے بشرط یہ کہ لوگ ذکر الٰہی عزوجل اور درس یا نماز میں مشغول نہ ہوں اور اگر مسجد میں کوئی موجود نہ ہو یا جو لوگ موجود ہوں وہ عبادتوں میں مشغول ہوں تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کی بجائے یوں کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا مِنْ رَّبِّنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْن (۲) وقت مکروہ نہ ہو تو دو رکعت تحیۃا لمسجد ادا کرے (۳)خرید و فروخت نہ کرے(۴)ننگی تلوار لے کر مسجد میں نہ جائے(۵)گمی ہوئی چیز چلا کر مسجد میں نہ ڈھونڈے (۶)ذکر الہٰي عزوجل کے سوا آواز بلند نہ کرے (۷) دنیا کی باتیں مسجد میں نہ کرے (۸)لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے(۹)جگہ کے لئے لوگوں سے جھگڑا نہ کرے
(۱۰)اس طرح نہ بیٹھے کہ لوگوں کے لئے جگہ تنگ ہو جائے (۱۱)نمازی کے آگے سے نہ گزرے (۱۲)مسجد میں تھوک اور کھنکھار نہ ڈالے (۱۳)انگلیاں نہ چٹخائے (۱۴)نجاست اور بچوں اور پاگلوں سے مسجد کو بچائے (۱۵)ذکر الٰہی عزوجل کی کثرت کرے (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۱)
مسئلہ:۔قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پیشاب پاخانہ کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح قبلہ کی طرف نشانہ بنا کر اس پر تیر چلانا یا گولی مارنا یعنی چاند ماری کرنا مکروہ ہے قبلہ کی طرف تھوکنا بھی خلاف ادب ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب الخامس فی آداب المسجد۔۔۔الخ،ج۵،ص۳۲۰)
0 Comments: