مولانا حسن رضا بریلوی کی تصنیفی خدمات
محمد ثاقب رضا قادری
مرکزا لاولیاء لاہور، پاکستان
بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں ٭ مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا
’حسن رضا بریلوی‘ جہانِ شعروسخن کا ایک مشہور اور دنیاے علم واَدب کا ایک مظلوم نام ہے۔ یہ نام میلادکی محفلوں میں کثرت سے کانوں میں رس گھولتا ہے؛ لیکن علم واَدب کے عصری دبستان اس نام سے بہت کم مانوس ہیں۔ حالانکہ اس نام کی گونج علم وفکرکے ایوانوں میں زیادہ سنی سنائی جانی چاہیے؛ کیوں کہ یہ نام شعروسخن کے میدان سے زیادہ فکروتحقیق اورعقائدونظریات کے میدانوں میں معرکہ آرا رہا ہے۔ اس مظلوم مجاہد نے نظم و نثردونوں میدانوں میں بے تکان لکھا، اور اتنا لکھا کہ عقائد ومعمولات اہلسنّت کونکھار نکھار کے رکھ دیا، اورمنکرین و مخالفین کو رجھارجھا کے پچھاڑا؛ تاہم ہم جیسے ننگ اَسلاف ان گراں قدر سرمایوں کی کیا قدر جانتے۔ نہ اُن کی حفاظت کا کوئی معقول بندوبست کیا، اور نہ اُن کی اشاعت مکرر کرکے اُن کی صیانت کو یقینی بنایا۔ گویا ایسے بیش قیمت خزانے کو ضائع کرنے میں ہم نے اپنی طرف سے تو کوئی کسر روانہ رکھی؛ تاہم مالک الملک پروردگار کو ایسے بیش قیمت شہ پاروں کا ضیاع منظور نہ تھا؛ کیوںکہ اُن میں توحیدباری کی تابانیاں اور عشق رسول مقبول علیہ السلام کی جلوہ سامانیاں مستور تھیں، سو اُس نے اُن کے تحفظ وبچائو کا غیبی سامان کیا، اور آج محض اُسی کی توفیق بے پایاں اورنوازشِ بے کراں کے طفیل ایک ایک کرکے وہ ہم دست ہوتے چلے جارہے ہیں۔ فللہ الحمد علی منہٖ وکرمہٖ- اس مضمون کے ذریعہ دراصل حسن رضا بریلوی کے انھیں نایاب وپایاب لعل وگہرکی تب وتاب کا کچھ اجمالی وتفصیلی بیان مقصودہے۔
۱۔ ذوق نعت [۱۳۲۶ھ]
مولانا حسن رضا کا نعتیہ دیوان ’’ذوق نعت‘‘ معروف بہ ’’صلۂ آخرت‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۳۲۶ھ میں آپ کے وصال کے بعدحکیم حسین رضا خان کی سعی و اہتمام سے طبع ہوا۔حمد، نعت، مناقب صحابہ و اولیأ،ذکر شہادت، بیان معراج، نغمۂ رُوح،کشفِ رازِ نجدیت ،رُباعیات اور چند تاریخی قطعات پر مشتمل ہے۔ تقریبًا تمام حروف تہجی کے ردیف میں مولانا نے کلام فرمایا ہے۔ اول طباعت پر اخبار ’’اہل ِفقہ‘‘ ،امرتسرکے ایڈیٹر مولانا غلام احمد صاحب نے ۲۰جولائی، ۱۹۰۹ء کے شمارہ میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا اشتہار دیا، جس کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں :
’’یہ نعتیہ دیوان جناب حضرت مولانا الحاج حسن رضا خان صاحب مرحوم و مغفور بریلوی کی تصنیف ہے۔ حضرت مولانا موصوف اعلیٰ درجہ کے ادیب اور شاعر تھے اور آپ کے کلام میں ایسی تاثیر ہے کہ دل اِس کے سننے سے بے اختیار ہو جاتا ہے۔ آپ کی قادرُالکلامی کا یہ عالم ہے کہ ایک دفعہ مجھے بریلی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نعتیہ رسالہ جاری کرنے والا ہوں، پہلی طرح ہو گی’’محوِ دیدار ِمحمد دل ہمارا ہو گیا‘‘، اس پر ایک نعتیہ غزل تحریر فرما دیجیے۔
آپ نے فورًا قلم برداشتہ غزل لکھ دی جس کے چند اشعار درج ہیں(یہ غزل دیوان میں موجود نہیں) :
ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا
غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا
تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے
تیری ہیبت سے فلک کا مہ دو پارا ہو گیا
نام تیرا ذکر تیرا تُو ترا پیارا خیال
ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا
آپ نے ایام رحلت سے پہلے اپنا نعتیہ دیوان مرتب کرنا شروع کیا مگر افسوس کہ چھپنے سے پہلے آپ رہ گزارِ عالم جاودانی ہوئے اور اب یہ دیوان آپ کے فرزندرشید جناب مولوی حکیم حسین رضا خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ پر بکمالِ آب وتاب چھپوایا ہے۔ علاوہ نعت شریفوں کے حضراتِ بزرگان دین کی شان میںمناقب و قصائد لکھے ہیں۔ بعض مبتدعین کے ردمیں بھی چند نظمیں ہیں۔ تمام مسلمانوں کو عمومًا اور نعت خوانوں کو خصوصًااس قابل قدر کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے’’ ذوق نعت‘‘ کی تاریخ میں ایک شاہکار قطعہ لکھا، قطعہ کیا ہے اعلیٰ حضرت کی شاعر ی شکوہ انداز، حسنؔ کی یادیں ، شاعری اور شخصیت کا حسین مرقع، ملی اور مذہبی خدمات ، اپنے روابط اور حسنؔ سے جذباتی لگاؤ کا واضح اظہار جو اعماقِ قلب سے زبانِ قلم پر اُترا اور صفحہ قرطاس پر بکھر گیا ۔ آخری چار شعر ہر مصرع تاریخ، مصرع نصف کی تکرار، صنائع بدائع سے مملو، حسن وجمال کی تصویر دیکھیے ؎
قوت بازؤے من سُنّی نجدی فگن
حاجی و زائر حسن، سلمہٗ ذوالمنن
نعت چہ رنگیں نوشت، شعر خوش آئیں نوشت
شعر مگو دیں نوشت، دور ز ہر ریب و ظن
شرع ز شعرش عیاں، عرش بہ بتیش نہاں
سُنّیہ را حرزِ جاں، نجدیہ را سر شکن
قلقلِ ایں تازہ جوش، بادہ بہنگام نوش
نور فشاند بگوش، شہد چسکاں در دہن
کلک رضاؔ سالِ طبع، گفت بہ افضال طبع
زا نکہ از اقوالِ طبع، کلک بود نغمہ زن
’’اوج بہیں محمدت، جلوہ گہ مرحمت‘‘
’’عافیت عاقبت باد نوائے حسنؔ‘‘
’’بادِ نوائے حسنؔ، باب رضائے حسن‘‘ؔ
’’باب رضائے حسنؔ، باز بہ جلبِ منن‘‘
’’باز بہ جلبِ منن، بازوئے بخت قوی‘‘
’’بازوِ بخت قوی،نیک حجابِ محن‘‘
’’نیک حجابِ محن، فضل عفو و نبی‘‘
’’فضل عفو و نبی، حبل وی و حبل من‘‘
اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :
نعتِ حسنؔ آمدہ نعتِ حسن
حُسنِ رضا باد بزیں سلام
اِنَّ مِنَ الذَّوْقِ لَسِحْرٌ ہمہ
اِنَّ مِنَ الشِعْرِ لَحِکْمَۃٌ تمام
کلک رضاؔ داد چناں سال آں
یافت قول از شد رأس الانام
پاک و ہند میں’’ذوق نعت‘‘ کے کئی ایڈیشنز چھپ کر قبولیت عامہ حاصل کرچکے، لکھنؤ سے طبع ہونے والے پانچویں ایڈیشن میں کچھ کلام کا اضافہ کیا گیا ، غالبًایہی نسخہ بعد میں مرکزی انجمن حزب الاحناف، لاہور سے شاہ ابوالبرکات (خلیفۂ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی) نے شائع کروایا۔ اضافی کلام کی تفصیل پیش کی جاتی ہے :
۱۔ اس ایڈیشن میں مولانا حسن رضا کی مثنویوں کو شامل کیا گیا، جن میں’’ وسائل بخشش ‘‘بھی شامل ہے اور کچھ میلاد شریف کے بیان پر مشتمل ہیں۔
۲۔قصیدہ درمدح شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمۃ
۳۔نذیر احمد دہلوی نے سیداحمدخان کی مد ح میں قصیدہ لکھا تھا جس کا ردیف ’’باقی‘‘تھا ، مولانانے اس قصیدہ کا ایک ایک شعر نقل کرکے پھر اسی ردیف میں نذیر احمد کے قصیدہ کا رد کیا ہے۔ تقریبًا سو (۱۰۰) سے زائد اشعار ہیں۔
۲۔ وسائل بخشش [۱۳۰۹ھ]
وسائل بخشش (1309ھ) اُستاد زمن، شہنشاہ سُخن برادرِ اعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان حسنؔ برکاتی بُوالحسینی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مایۂ ناز تصنیف ہے۔طباعتِ اُولیٰ نادری پریس بریلی سے1309ھ میں ہوئی ۔ لکھنؤ سے پرنٹ ’’ذوق نعت‘‘ کے بار پنجم ایڈیشن کے ساتھ ملحق کر دیا گیا۔بعد میں طبع ہونے والے ’’ذوق نعت ‘‘کے ایڈیشنز سے متعدد کلام خارج کر دیا گیا جس کی وجہ سے یہ مثنوی ’’وسائل بخشش‘‘ بھی نایاب ہو گئی۔
ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب ؔمولانا حسن رضا کی مثنویوں کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’ ان میں قابل ذکر مثنوی ’’وسائل بخشش‘‘ ہے جس میں 602اشعار ہیں اور نعت کے علاوہ مناقب بھی ہیں۔ اس مثنوی کا انداز مثنوی کی فضا کے مطابق غزل سے اور خاص طور پر داغؔ اسکول کی غزل سے بالکل مختلف ہے، بہ حیثیت مجموعی یہ اعلیٰ درجہ کی مثنوی ہے۔ ذوق نعت میں اس کی شمولیت ناروا تھی، اس کو علیحدہ کتابی شکل میں طبع ہونا چاہیے تھا۔‘‘(ماہنامہ سُنّی دنیا ، مولانا حسن رضا نمبر1994ء، صفحہ16)
وسائل بخشش کا آغاز توحید باری تعالی سے ہوتا ہے ، مولانا نے نہایت احسن انداز میں اللہ وحدہ‘ لاشریک کی وحدانیت حقیقی کوبصورت نظم بیان کیاکچھ دیگر صفاتِ اُلوہیت کا بیان کرنے کے بعد حضور ختم المرسلین ا کی بارگاہ میں مدحت کے گلدستے پیش کیے اور آخر میں سرکار غوثیت مآب میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔پھر سرکار غوث پاک کی گیارہ (11)عدد کرامات کا منظوم ذکر کیا اور دو عدد مناقب تحریر کیں اور آخر میں ایک مولانا حسن رضا کا تحریر کردہ ’’نغمہء رُوح ‘‘(1309ھ) اور اعلیٰ حضرت کی ’’نظم معطر‘‘(1309ھ) بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر صابر سنبھلی (مرادآباد، ہند) لکھتے ہیں:
’’(وسائل بخشش کی) پہلی تین مثنویات حمدیہ و نعتیہ ہیں جن میں عشق و محبت کے جذبات کی تیز آنچ کے ساتھ اشہبِ فکر کی وہ جُولانیاں بھی نظرآتی ہیں جو مولانا کو عاشق سے زیادہ شاعر اور شاعر سے زیادہ عاشق ثابت کرتی ہیں۔‘‘ (نعت رنگ ،جلد18، امام احمد رضا نمبر، ص627)
یہ کتاب علامہ محمد افروز قادری چریاکوٹی اور راقم کی کوشش سے جدید ترتیب و تخریج و حواشی کے ساتھ مکتبۂ اعلیٰ حضرت،لاہور پاکستان سے طبع ہو چکی ہے۔ وسائل بخشش میں ذکر کردہ کرامات غوثیہ میں سے نو (9) روایات شاہ ابوالمعالی رحمۃ اللہ علیہ (1025ھ۔960ھ) کی مایہ ناز تصنیف ’’تحفۃ القادریہ ‘‘ (فارسی) میں سے لی ہیں ، ایک روایت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1052ھ۔958ھ) کی اخبار الاخیار سے لی گئی ہے۔
۳۔ صمصام حسن بردابر فتن [۱۳۱۸ھ]
ندوہ کے رد میں بزبانِ فارسی مثنوی ہے جو کہ’’ آمال الابرار وآلام الأشرار‘‘ کے ہمراہ ۱۳۱۸ہجری میں مطبع حنفیہ، عظیم آباد سے شائع ہوئی۔سرورق پر یہ عبارت تحریر ہے:
’’الحمدللہ یہ قصیدہ و مثنوی کامجموعہ لاجواب ہے قصیدہ و مثنوی ندوہ کا جواب ہے مقاصد قصیدہ مذمت دنیا،ترغیب ِعقبیٰ،قدح ندوۂ بدعت، مدح جلسۂ علمائے اہل سنت، دافعۂ فساد منعقدہ عظیم آباد عربی فصیح بے ارتکاب ضرورات قبیح مع ترجمہ اردو با محاورہ سلیس بے تکرار قافیہ170اشعار آبدار نفیس نام تاریخی ’’آمال الابرار وآلام الاشرار‘‘ معروضہ خادم سنت و اہل سنت محمد عبدالوحید حنفی فردوسی عظیم آبادی مع مثنوی فارسی بنام تاریخی ’’صمصام حسن بردابرِ فتن‘‘ تصنیف لطیف فصیح بے مثال بلیغ نازک خیال محب سنت عدو بدعت جناب مولانا مولوی محمد حسن رضا خان حسنؔ قادری برکاتی بریلوی صین عن المحن اس میں بطرز جدید و بیان مفید نیچریہ و ندویہ و روافض و وہابیہ کا رد جلیل اور علمائے اہلِ سنت حضار جلسۂ عظیم آباد کی مدح جمیل باہتمام بندہ منتظم تحفۂ مبارکہ حنفیہ (شائع ہوئی۔)‘‘
اس مثنوی میں یہ عنوانات شامل ہیں: تبری از آلہہ مخترعہ بدعیان بحضرت الہ حق سنیاں، نعت شریف،کشف استار ندوۂ نابکار،باحکیم پریشان مداح ندوہ خطاب دوستانہ نمودن بار بحال ندوہ رجوع فرمودن،بزم آرائی خامۂ مشکین سواد در مدح طرازی مجلس علمائے اہل سنت واقع عظیم آبادشامل ہیں۔
آخری عنوان کے تحت جن علمائے اہل سنت کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، اُن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
تاج الفحول محب رسول علامہ عبدالقادر بدایونی، عین الحق شاہ محمد عبدالمجید بدایونی، معین الحق سیف اللہ المسلول شاہ محمد فضل رسول بدایونی،شاہ امین احمد، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، مطیع الرسول مولانا عبدالمقتدر بدایونی، حکیم عبدالقیوم بدایونی شہید مرحوم، سید عبدالصمد سہسوانی،مولانا حکیم محمد سراج الحق صاحب مقیم علی گڑھ، محدث سُورتی وصی احمد ، ابوالذکاء مولانا شاہ سلامت اللہ رام پوری، مولوی عنایت اللہ رام پوری، مولوی ہدایت اللہ خان جون پوری،مولانا عبدالغفار خان رام پوری، مولوی ظہور الحسین رام پوری، شاہ محمد حسین، شاہ احمد علی صاحب نقشبندی، مولوی عبدالسلام قادری برکاتی جبلپوری،شاہ محی الدین ، سید محسن کان پوری، مولوی رمضان ، مولوی عبدالکافی مولوی عبدالطیف، محمد عبدالعزیز صاحب مظفر پوری، مولوی عبدالمجید، مولوی بشارت کریم، حافظ محمد بخش،مولوی نبی بخش، شاہ عزیز الدین قمری، شاہ محمد امیر صاحب، مولوی سید اعظم شاہ جہانپوری، ،شاہ نصیر الحق، شاہ وحید الحق، مولوی فضل المجید بدایونی، حکیم خلیل الرحمن پیلی بھیتی، حکیم مومن سجاد کان پوری، اعجاز حسین رام پوری، مفتی حامد رضا خان بریلوی، مولوی عبیداللہ الہ آبادی، مولوی عبدالرحیم اور مولوی محمد علی ارشد صاحب ۔
بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں:
’’ عربی اور فارسی پر آپ (یعنی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی) کی دست گاہ ان قصائد سے ظاہر ہوتی ہے جو وقتًا فوقتًا آپ نے تحریر فرمائے ہیں۔ بہت سے قصائد جو اپنے احباب و ا صحاب کے نام سے کبھی تحریر فرمائے ہیں مثلاً آمال الابرار، صمصام حسن وغیرہا ان کے دیکھنے سے اعلیٰ حضرت کی ادبیت اور فصاحت و بلاغت کا قدرے علم ہوسکتا ہے۔‘‘(حیات صدرالشریعہ:۳۸ مطبوعہ رضا اکیڈمی، لاہور)
قصیدہ آمال الابرار سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم یہاں صمصام حسن کی بابت کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اول یہ کہ صمصام حسن کو کسی نے بھی اعلیٰ حضرت کی تصانیف میں شمار نہیں کیا۔ دوم یہ کہ اس مثنوی میںجہاں دیگر علماء کی مدح میں اشعار ہیں وہیں اعلیٰ حضرت کی شان میں بھی اشعار موجود ہیں ۔ اگرمفتی صاحب کے قول کو تسلیم کیا جائے تو پھر یہ مندرجہ ذیل اشعار کس کے تصنیف کردہ ہیں :
کعبۂ دیں حضرت احمد رضا
عالم سنت ہمہ نور ضیا
ماہ دل افروز عروج جمال
مہر عدو سوز بروج جلال
رفعت او بیں کہ بملک حجاز
دست بزرگان بدعایش دراز
از عمل و علم سر افراز گشت
معجزۂ صاحب اعجاز گشت
آیۂ رحمت ز کتاب کرم
مایہ نعمت پے خیر الامم
حامی و دمساز طریق حسن
خانہ بر انداز شرور و فتن
اتبری نجدیہ از نامہ اش
رفض کش و ندوہ شکن خامہ اش
وقف ثنایش ز عرب تا عجم
گمرہ اگر مدح نگو ید چہ غم
گوبد و بدگوئے بشو طعنہ زن
مرد خدا را چہ غم از طعنہ زن
خاک سوئے ماہ جہانتاب ریز
ہم سرو روئے تو شود خاک بیز
بدر کہ تا بید بہ انوار خوش
کار ندارد بہ سگ و عو عوش
شیر نہ ترسد ز ہیا ہوئے خوک
بحر نہ رنجدز لکد کوب غوک
۴۔ ثمرفصاحت [۱۳۱۹ھ]
مولانا حسن رضا کوفصیح الملک مرزا داغؔ دہلوی سے تلمذ حاصل تھا۔ یہ غزلیہ مجموعہ داغؔ دہلوی کی اقتدا میں ہی لکھا گیا۔ دیوان تو مولانا کی حیات میں ہی ترتیب پا گیا تھا مگر اشاعت آپ کے وصال کے بعد ہوئی،جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ثمرفصاحت کا مادہ ٔ تاریخ۱۳۱۹ھ ہے اور مولانا کا وصال ۱۳۲۶ھ میں ہوا۔’’ثمرفصاحت‘‘کی طباعت پر جو تاریخی قطعات رقم کیے گئے ان سے۱۳۲۶ھ، ۱۳۲۷ھ اور ۱۳۲۸ھ کا استخراج ہوتا ہے۔ چنانچہ منشی شریف خان صاحب، علی احسن میاں احسنؔمارہروی، نور محمد انورؔ ،سید تجمل حسین شاہ تجمل،ؔحافظ خلیل الدین حافظؔ، منشی دوارکا پرشاد حلمؔبریلوی،سید محمدطاہر علی طاہرؔ،سید مسعودغوث فیضؔ، منشی برجموہن کشور فیروزؔ بریلوی، اور نواب ناظم علی خان ہجرؔ شاہ جہانپوری نے ۱۳۲۷ہجری جبکہ منشی محمد حسن صاحب اثرؔ بدایونی نے ۱۳۲۸ھ اورمنشی سید تہور علی تہورؔ، سید محمودعلی عاشقؔ بریلوی،منشی ہدایت یار خان قیسؔ بریلوی اور اعجاز احمد مراد آبادی (کاتب دیوان) نے ۱۳۲۶ہجری پر قطعات رقم کیے ہیں۔
ثمرفصاحت میں کل ایک سو نوے (۱۹۰) غزلیں شامل ہیں، آخر میں ایک سہرا ہے جو کہ مولانا نے اپنے برادر اصغر مولانا رضا علی خان کی شادی پر رقم کیا اور پھر کچھ متفرق اشعار کے بعد تاریخی قطعات ہیں۔’’قندپارسی‘‘ جو کہ مولانا کا فارسی کلام ہے وہ بھی ’’ثمرفصاحت‘‘کے آخر میں ہے۔
لالہ سری رام اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
’’آپ کا عاشقانہ کلام آپ کے بعد طبع ہوا جو فی الحقیقت بہت اچھا ہے۔صفائی، سادگی،بندش اور شوکتِ الفاظ کے علاوہ پُردرد اور موثر بھی،طرزِ بیان میں سادگی کے ساتھ تِیکھا پن غضب کا ہے۔ تعقید اور آورد کا شروع سے آخر تک نام و نشان بھی نہیں ہے۔اکثر مصرع ثانی کی نسبت مصرع اولیٰ کے الفاظ کو الٹ پلٹ کر اس خوبی سے مصرع ثانی کا مضمون پیدا کر لیتے ہیںکہ تعریف نہیں کی جاسکتی،بول چال اور محاورات میں بھی صَرف گیری کی کم گنجائش ہے۔الغرض آپ کا مذاق شعر پاکیزہ اور اُسلوب بیان قابل تعریف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نواب فصیح الملک مرزا داغ دہلوی کے تلامذہ میں آپ ایک امتیازی درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ (روایت کی اہمیت، ازڈاکٹرعبادت بریلوی، صفحہ۲۶۵)
’’ثمرفصاحت‘‘کی کم یابی کی وجہ سے بعض حلقوںمیں شکوک و شبہات نے راہ پائی اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں جنم لیتی رہیں جن کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ پروفیسر منیر الحق کعبیؔ اپنے مقالہ میں لالہ سری رام کے اس اقتباس کونقل کرنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
’’لالہ سری رام نے لکھا ہے کہ ’’آپ کا عاشقانہ کلام آپ کے بعد طبع ہوا‘‘تو یہ حقیقت نہیں‘‘ مزید کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں:’’یہ درست ہے کہ بہت سے شعرا کاکلام محفوظ نہیں رہا ان کے مسودات گم ہوگئے، حسن بریلوی کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آیا۔ مولوی عبدالعزیز خان بریلوی لکھتے ہیں’’آپ کے کلام مجاز سے فضا رنگین اور نعت شریف سے ہوا معنبر۔ تین دیوان تو گم ہو گئے ثمرۂ فصاحت اور ذوق نعت شائع ہوئے‘‘ (تاریخ روہی لکھنؤ مع تاریخ بریلی:۲۸۷ مطبوعہ مہران اکیڈمی،کراچی)
اس کے بعد پروفیسر صاحب اپنا تبصرہ رقم کرتے ہیں:’’ہمارے خیال میں مولانا حسن بریلوی کے ساتھ کچھ معاملہ اور بھی ہو سکتا ہے، اس میں ممکن ہے اس پاکیزہ مسلک کا بھی ہاتھ ہو جو مولانا کو ایک غزل گو استاد کے بجائے ایک عالم دین اور نعت گو کے رُوپ میں دیکھنا چاہتا ہو۔ عبدالعزیز بریلوی نے ان کے دیوان غزلیات کا نام’’ثمرۂ فصاحت‘‘ لکھا ہے، راجا رشید محمود نے ’’ثمرفصاحت‘‘۔ ہمارا ادراک کہتا ہے کہ یہ نام ان کے نعتیہ دیوان ’’ذوق نعت‘‘ کی طرح تاریخی ہیں۔’’ثمرۂ فصاحت‘‘[۱۳۲۴ھ] اور ’’ثمرفصاحت‘‘ [۱۳۱۹ھ] بنتے ہیں اور یہ دونوں سنین ان کے وصال ۱۳۲۶ھ سے قبل کے ہیں۔دوبارہ کلام حسنؔ کا نہ چھپنابھی ہمارے مؤقف کی تائید کرتا ہے۔‘‘ (نگارستان لطافت:۱۳ مطبوعہ مسلم کتابوی، لاہور)
قارئین کرام! مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ بات روشن ہے کہ پروفیسر صاحب کے پاس ’’ثمرفصاحت‘‘ موجود نہیں تھا ، اسی لیے وہ تبصرہ کرتے ہوئے بہت دُور نکل گئے۔جبکہ حقیقت وہی ہے جو لالہ سری رام نے بیان کی کہ’’ آپ کا عاشقانہ کلام آپ کے بعد طبع ہوا‘‘ اگرچہ ’’ثمرفصاحت‘‘ سے ۱۳۱۹ھ برآمد ہوتا ہے ۔لہٰذا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ دیوان ۱۳۱۹ھ میں ترتیب دیا گیا؛ مگر اشاعت میں تاخیر ہوتی رہی۔
پروفیسر صاحب نے مزید مولانا کی شخصیت کی دینی جہتوں اور مسلک کے حوالے سے غزلیہ دیوان کی اشاعت کی بابت جو کچھ رقم کیا، اس کا بھی حقیقت سے کچھ واسطہ نہیں۔ اس ضمن میں ہم کچھ گزارشات کرنا چاہتے ہیں؛
۱۔ ’’ثمرفصاحت‘‘کی اشاعت مولانا حسن رضا کے وصال کے ایک سال بعد ہوئی ۔
۲۔یہ اشاعت مولانا کے صاحبزادے مولوی حکیم حسین رضاخان صاحب کی فرمائش پر ہوئی چنانچہ ’’ثمرفصاحت‘‘ کے سرورق پر یہ عبارت تحریر ہے’’بفرمائش ابن اکبر حضرت مصنف مرحوم مولوی حاجی حکیم محمد حسین رضا خان صاحب قادری بوالحسینی بریلوی سلمہ المولیٰ القوی عن شر کل غوی‘‘۔
۳۔اہل سنت کے معروف اشاعتی ادارہ ’’مطبع اہل سنت و جماعت ‘‘بریلی سے طبع ہوا۔ چنانچہ سرورق پر تحریر ہے’’مطبع اہل سنت و جماعت بریلی میں طبع اہل عشق ہوا۔‘‘
۴۔ ’’ثمرفصاحت‘‘ میں شامل قطعات تاریخ طباعت اوپر مذکور ہوئے یعنی ۱۳۲۶ھ،۱۳۲۷ھ اور ۱۳۲۸ھ۔
۵۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکۃ امام احمد رضاخان اس دیوان کی اشاعت کے بعد تقریباً بارہ تیرہ سال یعنی ۱۳۴۰ھ تک حیات رہے۔
ہمارا پروفیسر صاحب موصوف اور ان کے ہم نوا دیگر حضرات سے سوال ہے کہ کیا ’’ثمرفصاحت‘‘ کی اشاعت اول بفرمائش مولانا حسین رضا خان ہونا پھر اہل سنت کے ممتاز ادارے مطبع اہل سنت و جماعت سے ہونا(جو کہ اس وقت بدمذہبیت کے تعاقب میں پیش پیش تھا)اور پھر اعلیٰ حضرت کی حیات میں ہونا ، کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اس دیوان میں ایسی کوئی بات نہیں جو کہ محل اعتراض ہو ۔ ورنہ یہ حضرات اس کو شائع نہ کرتے یا پھر اشاعت کے وقت حذف کر دیتے، یا کم از کم بعد میں ہی کوئی توضیح شائع کروا دیتے۔مولانا حسن رضا کے احوال کی بابت تحقیق کرنے سے بھی یہ بات روشن ہے کہ مولانا اپنی دینی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادبی خدمات بھی سر انجام دیتے رہے ، ادبی مشاعروں میں شریک ہوتے اور باقاعدہ فروغ ادب کے لئے کوشاں رسائل و جرائد کی سرپرستی کرتے رہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیبؔ اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں:
’’ان کی (یعنی مولانا کی) نگرانی اور سید محمود علی عاشقؔ کی ادارت میں ماہنامہ ’’بہار بے خزاں‘‘ اور ہفتہ وار ’’روزافزوں‘‘ بھی جاری ہوا، جو اس عہد کے مطابق پاکیزہ ادب پیش کرتے تھے۔‘‘ (ماہنامہ سنی دنیا، مولانا حسن رضا نمبر:۱۰)
لہٰذا مولانا کی دینی اور مسلکی خدمات کے ساتھ ساتھ ادبی خدمات کو بھی بنظرِ تحسین دیکھنا چاہیے نہ کہ ان کو مسلک کی بھینٹ چڑھادیا جائے۔
۵۔ قند پارسی
مولانا حسن رضا نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی کلام فرمایا ہے اگرچہ یہ نہایت مختصر ہے۔یہ کلام ’’ثمرفصاحت‘‘کے ساتھ ہی طبع ہوچکا ہے۔ثمرفصاحت کے صفحہ نمبر ۲۰۱ سے ۲۱۸پر موجود ہے۔ اس کلام کے مشمولات میں حضرت شاہ بدیع الدین مدار قدس سرہ کی منقبت،مولانا امیر خسرو کی کتاب ہشت بہشت پر منظوم تقریظ،مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات،زمزمہ پیرائی عندلیب خامہ در لغت گلعذاری کہ بہار باغ فردوس جلوہء از عارض رنگین اوست، بیان شب معراج و عروج صاحب تاج، مدح مثنوی شریف اور کچھ تاریخی قطعات ہیں ۔ ان قطعات میں مولانا حضرت شاہ آل رسول مارہروی،مولانا حسن رضا کے مرشد مولانا شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب کے قطعات تاریخ وصال ہیں ، سید برکت علی صاحب نامی تلمیذ مولانا حسن رضا کی کتاب ’’واسوخت‘‘، میرکاظم حسین لکھنوی کی کتاب’’غنچہء جاوید‘‘، قاضی خلیل الدین حافظؔ کے نعتیہ دیوان، نواب عبدالعزیز خان صاحب مرحوم کی کتاب’’ترقی وتنزل کے اسباب‘‘ محمد احسان اللہ احسانؔ اور محمد الیاس صاحب برقؔ کے دیوان کے قطعات تاریخ طباعت ہیںاور آخر میں سید حبیب اللہ دمشقی کا شجرہ نسبی بھی موجودہے،جو کہ مولانا حسن رضا نے سید صاحب کے حسب ارشاد تحریر فرمایاتھا ۔
۶۔ ساغر پُرکیف
مولانا حسن رضا کا ایک مختصر غزلیہ مجموعہ بنام’’ ساغر پُرکیف ‘‘کا تذکرہ بھی ملتا ہے؛ تاہم راقم کو اب تک یہ دستیاب نہ ہو سکا۔مدیر رسالہ مسلک،ممبئی جناب محترم محمد زبیر قادری صاحب نے ڈاکٹرمحمدصابر سنبھلی صاحب، مرادآباد، ہندکا ایک مقالہ ’’مولانا حسن رضا کی نعتیہ شاعری‘‘ (سوفٹ کاپی) بھیجا۔ جس میں جناب ڈاکٹر صابر صاحب رقم طراز ہیں:
’’غزلوں کا ایک مختصر مجموعہ ’’ساغر پُرکیف‘‘دستیاب ہے ، ثمرفصاحت کمیاب ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب سے اس ضمن میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کلام انہوں نے کسی لائبریری میں دیکھا تھااور یہ کلام ’’ثمرفصاحت‘‘میں شامل ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت سے کم ازکم یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ مولانا حسن رضا کی غزلیات کا ایک مجموعہ بنام ’’ساغرپُرکیف‘‘ طبع ہوا تھا، گو کہ اب نایاب ہے۔اس بات کی مزید توثیق ڈاکٹر امجد رضاامجد، پٹنہ کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے:
’’علامہ ڈاکٹر حسن رضا خان، پی ایچ ڈی، پٹنہ کی مایۂ ناز تصنیف ’’فقیہ اسلام‘‘ میں ایک اور کتاب ’’ساغر پُرکیف‘‘ کا تذکرہ ملا۔‘‘ ّ(ماہنامہ سنی دنیا، حسن رضا نمبر، صفحہ:۴۷)
۷۔ نگارستان ِلطافت [۱۳۰۲ھ]
ماہنامہ تحفہ حنفیہ، پٹنہ(محرم الحرام جلد۳، شمارہ۲) میںاس کتاب کی اشاعت ثانی پر حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا، جس کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں:
’’چمن مدحت سرائے مصطفوی کا عندلیب، نغمہ سراگلشن نعت احمدی کا بلبل خوش نوا محب و محبوب جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم کے راز و نیاز کی بولتی چالتی تصویر، صحت روایات،صدقِ حکایات،حلاوتِ بیان،سلاست ِزبان میں آپ ہی اپنا نظیر جس کو عم مکرم مفخم و محترم شیریںبیان جناب مولانا مولوی حسن رضا خان حسنؔ صاحب نے تصنیف فرمایا اور نظر فیض اثر شمع بزم ہدایت آئینہ ماہ رسالت حکیم امت حضرت عالم اہل سنت استاذنا والد ماجدنا و مقتدانا و ہادینا جناب مولانا مولوی احمد رضا خان صاحب ما برح بالمواہب سے نور پا کر ۱۳۰۲ھ میں ایک ہزارجلد چھپ کر شائع ہوا اور بفضلہ تعالی قبول قبول کے سرد جھوکوں کے ساتھ خوشبو کی طرح پھیل کر دماغوں میں بسا،دلوں میں سرور، آنکھوں میں نور ہو کر اترا، عزت کے ہاتھوں نے ہاتھوں لیا۔ حتی کہ ایک سال میں ایک نسخہ بھی باقی نہ بچا۔ مسودہ تک بعض احباب نے چھین لیا اور مشتاق نگاہوں کا انتظار آرزو مند دلوں کا اضطرار فرمائشوں پر فرمائشوں کا تار روز افزوں ترقی پر ترقی کرتا رہا۔
میرے معزز کرم فرما حافظ محمد ارشاد علی صاحب مہتمم مطبع اہل سنت نے مجھے اس خدمت عجاب ہم خرما وہم ثواب کے پورا کرنے پر ابھارا۔ حضرت عم مکرم نے تھوڑی ترمیم کے بعد کچھ اپنا کلام اور زائد فرمایا۔ میں نے بہ نیت معاونت مطبع اہل سنت و جماعت بریلی بقلم جلی دبیز کاغذ پر گل کاری وغیرہ اہتمام کے ساتھ بحسن انتظام چھپوانا شروع کیا اب کہ یہ مبارک رسالہ قریب اختتام ہے،مدح خوانی کے عاشقوں نعت سرائی کے شیدائیوں کو صلائے عام ہے کہ سہل افکاری کو کام میں نہ لائیں،فرمائشیں حتی الامکان جلد آئیں،پہلے کی طرح کہیں اس دفعہ محروم نہ رہ جائیں۔‘‘
’’نگارستانِ لطافت‘‘ میلاد و معراج شریف کے بیان پر مشتمل نہایت ہی ایمان افروز رسالہ ہے ۔ مولانا حسن رضا نے اولین اشاعت کے بعد کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ دوبارہ شائع کروایا۔راقم کے پیش نظررضوی پریس،بریلی کا شائع کردہ نسخہ ہے جو کہ مولانا ابراہیم رضاخان کے اہتمام سے شائع ہوا۔ اس کے کل۵۰صفحات ہیں۔اور یہ ترمیم واضافہ سے قبل کاہے۔ پاکستان میں یہی نسخہ مسلم کتابوی، لاہور نے پروفیسر منیرالحق کعبیؔ کے مضمون’’قوت بازوئے امام احمد رضا…مولانا حاجی محمد حسن‘‘کے اضافہ کے ساتھ شائع کیا۔
راقم کے پاس دوسرا نسخہ مطبع اہل سنت وجماعت ،بریلی کا شائع کردہ ہے جو کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کے اہتمام سے ۱۳۳۱ھ میں اس ادارہ سے چوتھی بار طبع ہوا۔ یہ ترمیم و اضافہ والا ایڈیشن ہے، اس کے کل صفحات اندازاً۷۲ ہے چونکہ یہ ناقص الآخر ہے۔
نئے ایڈیشن میں جس کلام کومولانا حسن رضا نے خارج کیا، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
نعتیہ غزل’’عجب رنگ پر ہے بہار مدینہ‘‘، ’’کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج‘‘ اور اعلیٰ حضرت کی نعتیہ غزل’’سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی‘‘۔
جس کلام کا اضافہ کیا، اس کی تفصیل یہ ہے:
نعتیہ غزل’’مجرم ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلا‘‘، ’’کہوں کیا حال زاہد گلشن طیبہ کی نزہت کا‘‘،’’سرصبح سعادت نے گریباں سے نکالا‘‘،پُرنور ہے زمانہ صبح شب ولادت‘‘اور کتاب کے آخر میں اعلیٰ حضرت کا تحریر کردہ مشہور زمانہ سلام’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘۔ اس سلام کونقل کرتے ہوئے مولانا نے شعر (کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی …آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام) کے بعد ۶۵ اشعار حذف کردیے۔
پروفیسر منیر الحق کعبیؔ ’’نگارستان لطافت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نگارستان لطافت‘‘ میں حسن بریلوی کا اسلوب متنوع پیکر اختیار کرتاہے، ہر پیکر میں زندگی کا نورانی احساس، اپنے مرکز سے شدید وابستگی نے لفظوں میں ایک جان ڈال دی ہے، چھوٹے چھوٹے جملے اور لفظوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں لکھنے والے کی جذباتی کیفیت کی ترجمانی ہے۔حسنؔ نے’’ نگارستانِ لطافت ‘‘میں اپنے شعری وسائل کو خوب استعمال کیا ہے، صنائع بدائع کا التزام جا بجا نظر آتا ہے۔ بعض اوقات مسجع اور مقفٰی ٹکڑے عبارت میں آتے ہیں تو شکوہ لفظی اور جلال معنوی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے لیکن اگر یہی مسلسل در آتے ہیں تو وہ جوش خطابت تو پیدا کرتے ہیں مگر تاثر میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور یہ قدیم اُسلوب کا خاص رنگ ہے۔ اکثر سادہ اور نثر عاری ہے۔ مولانا حسن نے اپنے اُسلوب کی انفرادیت میں اندرونی آہنگ کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔ نثری اقتباسات کے درمیان شعر و غزل و مثنوی کے پاروں سے کام لیا ہے۔ نثری اقتباس کا آخری جملہ گریز کاکام دیتا ہے اور پھر شعری اقتباس لطف و اہتزار کا باعث بنتا ہے۔
معراج شریف کا بیان ایک مسدس سے شروع ہوتا ہے۔ مسدس کی زبان پر انیسؔکی زبان کا گمان ہوتا ہے۔تشبیہات و استعارات کی جمال افروزی، الفاظ کی بندش نگینے جڑے ہوئے، سادگی، سلاست اپنے عروج پر۔غرض حسنؔ کی شاعری اپنے حسنِ کمال پر ہے۔‘‘ (نگارستان لطافت :۲۷ مطبوعہ مسلم کتابوی، لاہور)
اس کتاب کی طباعت پراعلیٰ حضرت فاضل بریلوی، مولانا حسن رضااور محسن کاکوری نے قطعات تاریخ طباعت رقم فرمائے جن کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی:
(۱) یافت حسنؔ حُسنِ تحسیں از حسان در ذکرِ حسیں
گفت رضاؔ تاریخ چنیں ’’نعت اشرف قبلۂ دیں‘‘[۱۳۰۲ھ]
(۲) دل و جانم حسنؔ گفت و در سفت بہ سلکِ مدحت میلاد اقدس
شنیدم نغمہ می زد بلبل خلد ’’مبارک شادی نعت مقدس‘‘[۱۳۰۲ھ]
مولانا حسن رضا:
(۱) ہو گیا ختم یہ رسالہ آج شکر خالق کریں نہ کیوں کر ہم
سنِ تالیف اے حسنؔ سن لے ’’منبع وصف شہریارِ ارم‘‘[۱۳۰۲ھ]
(۲)
یہ چند ورق نعت کے لایا ہے غلام آج انعام کچھ اس کا مجھے اے بحرِ سخا دو
میں کیا کہوں میری ہے یہ حسرت یہ تمنا میں کیا کہوں مجھ کو یہ صلا دو یہ صلا دو
تم آپ مرے دل کی مرادوں سے ہو واقف خیرات کچھ اپنی مجھے اے بحرِ عطا دو
ہیں یہ سنِ تالیف فقیرانہ صدا میں ’’والی مَیں تصدق مجھے مدحت کی جزا دو‘‘ [۱۳۰۲ھ]
محسن کاکوری:
حسنؔ کز حُسن طرزش طبع استاد بعنوانِ تخلص یوسفے گفت
زمین شعر اء را عرش اعلیٰ سر بر آرائے چرخ چار می گفت
کلام پاک او را حضرت خضر مصفا ترز آب زندگی گفت
بہ فیض فکر جانے در سخن ریخت سخن در ذکر میلاد نبی گفت
نبی ہاشمی کا ندر صفاتش خدائے پاک سبحان الذی گفت
برائے یادگار سال محسنؔ ’’بہارستان نعت احمدی گفت‘‘[۱۳۰۲ھ]
۸۔ دین حسن
اسلام کی حقانیت پر کتب ہنود و نصاریٰ سے روشن دلائل پر مشتمل یہ رسالہ مولانا حسن رضا کی تصانیف میں ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ راقم کے پیش نظر مطبع اہل سنت وجماعت ،بریلی کا نسخہ ہے جس کو مولانا کے صاحبزادے حسنین رضا خان مدیر رسالہ ’’الرضا‘‘ نے اپنے اہتمام سے طبع کروایا، اس کے کل صفحات ۳۲ ہیں۔یہ اشاعت مولانا حسن کے وصال کے بعد کی ہے مگر اس پرسن طباعت تحریر نہیں ہے۔ اول طباعت کا سن بھی دستیاب نہیں ہو سکا۔ تاہم ڈاکٹر سید عبداللہ طارق صاحب نے اپنے مقالہ میں اس رسالہ کا اندازاً سن طباعت ۱۸۸۰ء تحریر کیا ہے۔
پاکستان میں ایک عرصہ قبل نوری بک ڈپو نے شائع کیا تھا مگر فی الوقت یہ رسالہ موقوف الاشاعت ہے۔ الحمدللہ راقم اور علامہ محمد افروز قادری چریاکوٹی کی مشترکہ کاوش سے یہ رسالہ جدید ترتیب و عربی و فارسی عبارات کے اردو ترجمہ کے ساتھ انٹرنیٹ پر پبلش ہوچکا اور ان شاء اللہ عنقریب پاکستان میں مکتبۂ اعلیٰ حضرت، لاہور اور انڈیا میں صدرالافاضل اکیڈمی، دہلی سے طبع ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ طارق نے اس رسالہ پر ایک تحقیقی مضمون تحریر کیا، بعض مقامات کی توضیح و تشریح بھی کی ان کا یہ تحقیقی مقالہ ماہنامہ سنی دنیا، بریلی کے ’’حسن رضا نمبر‘‘ میں چھپ چکا ہے۔ راقم نے اس کی افادیت کے پیش نظر جدید ایڈیشن میں شامل کیا ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ طارق رسالہ کے بارے تحریر کرتے ہیں:
’’دین حسن‘‘ مولانا نے عیسائی اور ہندو حضرات کے اعترافات کا ایک ایسا انتخاب یک جا کر دیا ہے جو ایک طرف مومنین کے لئے باعث تقویت ایمان ہے تو وہیں دوسری جانب ان شاء اللہ مخالفانِ اسلام کے لئے ایک زبردست حجت ثابت ہوگابشرطیکہ اس رسالے کو ہندی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کر کے غیر مسلموں تک پہنچانے کی کما حقہٗ کوشش کی جائے۔مرحوم نے پیغام پہنچا دیا ، سننے والوں پر واجب کہ اسے آگے پہنچائیں اور ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ غیر مسلم قارئین کی توفیق پر چھوڑ دیں۔‘‘
علامہ مولانا محمد افروز قادری زید شرفہ تحریر فرماتے ہیں:
’’دین حسن‘ نامی اس کتاب کا چرچا میں نے بھی بارہا سن رکھا تھا؛ مگر کبھی شرفِ مطالعہ اس لیے نصیب نہ ہوسکاکہ کہیں ہاتھ ہی نہ لگی۔ اَب جب کہ مدتوں بعد ہاتھ آئی ہے توجی چاہتاہے کہ ’یوسف گم گشتہ‘ کی طرح سینے سے چمٹائے رکھوں، کسی صورت اسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ ’دین حسن‘ کیا ہے؟ اپنے موضوع پر اِسے بالکل اکلوتی کتاب سمجھیں۔ یہ حرف حرف حقیقت تو ہے ہی اپنے اندر قطرہ قطرہ قلزم کی شان بھی رکھتی ہے۔ پڑھیں تو پڑھتے چلے جائیں اور دین کے حسن بے پناہ میں کھو کھو جائیں۔ جس عقلی اور سائنسی نہج پر علامہ حسن رضا بریلوی نے یہ کتاب تالیف فرمائی ہے وہ خاص انہی کا حصہ ہے، اور خانوادۂ رضویت ہی کے کسی سپوت سے اُس کی توقع بھی کی جاسکتی تھی۔ اگرآج ہمارے مصنّفین دعوتِ دین کے لیے ’دین حسن‘ کا سا من موہنا، اُچھوتا اور دلِ چھوتا اُسلوب اپنالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اُن کی باتیں تاثیر کا تیر بن کر لوگوں کے ذہن وفکر میں نہ اُتریں، اور دین کی صحیح قدریں فروغ پذیر نہ ہوں!۔‘‘ (مکتوب بنام راقم)
۹۔الرائحۃ العنبریہ من المجمرۃ الحیدریۃ المعروف بہ تُزک مرتضوی[۱۳۰۰ھ ]
ردِ تفضیل پر مولانا حسن رضا کی ایک نادِر و نایاب تالیف ہے۔ اس کے دونوں نام تاریخی ہیں’’الرائحۃ العنبریہ من المجمرۃ الحیدریۃ‘‘ سے سن ۱۳۰۰ہجری اور ’’تزک مرتضوی‘‘ سے عیسوی سن ۱۸۸۳ء برآمد ہوتا ہے۔پہلی بار مطبع جماعت تجارت اسلامیہ، میرٹھ سے طبع ہوئی اور غالبًا دوبارہ شائع نہ ہوئی ۔ایک طویل عرصہ ٔ گمنامی کے بعد سن ۲۰۱۱ء میں علامہ محمد افروز قادری صاحب کی ترتیب و تخریج و تحشیہ کے ساتھ راقم نے پاکستان میں شائع کی۔جدید اشاعت ۴۸ صفحات پر مشتمل ہے جو کہ مکتبۂ اعلیٰ حضرت ، لاہور سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کتاب میں مولانا نے افضلیت شیخین پرکلام فرمایا ہے اورآیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کے ساتھ اکابر علماء و صوفیا کے اقوال سے مسلکِ حقہ اہل سنت کی تشریح فرمائی اور فرقۂ تفضیلیہ کو دعوت فکر پیش فرمائی۔ کتاب کے آخرمیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی تصنیف ’’مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین‘‘ سے ’’تبصرۂ سابعہ‘‘ کا کچھ حصہ نقل کیا جس میں مولائے کائنات علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے اٹھارہ (۱۸) خصائص کو بیان کیا گیا ہے۔ اشاعت جدید میں راقم نے تبصرۂ سابعہ کی افادیت کے پیش نظر مکمل شامل کر دیا ہے۔بعض مقامات سے نسخہ کِرم خوردہ ہونے کی وجہ سے مکمل عبارت نقل نہ ہو سکی۔
سرورق پر یہ عبارت تحریر ہے:
’’الحمدللہ کہ در فضائل علیہ جناب مولیٰ علی رضی اللہ عنہ مع بعض دلائل مختصر و عام فہم مسئلہ تفضیل حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایں رسالۂ سیف قاطع و برق لامع مسمّٰی بنام تاریخی ’’الرائحۃ العنبریۃ من المجمرۃ الحیدریۃ ‘‘ [۱۳۰۰ھ] ملقب بلقب مشعر سال عیسوی اعنی ’’تزک مرتضوی‘‘[۱۸۸۳ء] ا ز تالیف لطیف جناب مولوی حسن رضاخان صاحب حسنؔ قادری برکاتی ابوالحسینی بریلوی بفرمائش جناب مولوی غلام شبر صاحب قادری برکاتی ابوالحسینی بدایونی۔‘‘
حیات اعلیٰ حضرت جلد دوم صفحہ ۴۴ پر اس کتاب کو اعلیٰ حضرت کی تصنیف شمار کیا ہے ۔ تصانیف ا علیٰ حضرت میں اس کا نمبر شمار ۳۰۵ درج ہے۔مزید صفحہ نمبر ۱۴۸ پر رد نواصب کے عنوان کے تحت اعلیٰ حضرت کی تصنیف کے طور پر بیان کیا ہے۔مزید صفحہ نمبر ۲۰۶ پر ’’رد تفضیلیہ‘‘ کے عنوان سے سات تصانیف کے نام لکھے ، جن میں سے ایک ’’الرائحۃ العنبریۃ من المجمرۃ الحیدریۃ المعروف بہ تزک مرتضوی‘‘ہے۔
۱۰۔ بے موقع فریاد کے مہذب جواب [۱۳۱۲ھ]
یہ کتاب پنڈت بشن نرائن کی کتاب’’انگریزوں سے ہندوستانیوں کی فریاد‘‘ کے رد میں تحریر کی گئی اور ’’بے موقع فریاد کے مہذب جواب‘‘ کے تاریخی نام سے مطبع نظامی، بریلی سے طبع ہوئی۔پنڈت بشن نرائن نے اپنی کتاب میں گاؤ کشی کے متعلق اسلامی نظریہ پر اعتراضات کئے جس کا تفصیلی جواب اس کتاب میں دیا گیا ہے۔ سرورق پرمصنف کا نام یوں تحریر ہے’’جناب مولوی نصیرالدین حسن خان صاحب ‘‘
مولانا حسن رضا کے لئے ’’نصیر الدین‘‘کا لقب کہیں نظر سے نہیں گزرا۔ تاہم مولانا حسن رضا پر مقالات رقم کرنے والے تبصرہ نگاران نے اس کتاب کو مولانا حسن رضا کی تصانیف میں شمار کیا ہے۔ مزید مولانا کے دیوان ’’ثمرفصاحت‘‘ کے آخر میں مولانا کی تصانیف کی فہرست دی گئی ہے اس میں اس کتاب کا نمبر شمارتین( ۳) ہے۔مولانا حسرت موہانی نے بھی مولانا حسن کی تصانیف میں اس کو تیسرے نمبر پر درج کیا اور کچھ آگے جا کر لکھا ’’ان میں ابتدائی چھ کتابیں آپ کے زمانۂ حیات میں چھپ کر مقبول خاص وعام ہو چکی تھیں۔‘‘ (ماہنامہ سنی دنیا، حسن رضا نمبر، صفحہ :۸ بحوالہ اردوئے معلی)
۱۱۔ فتاوی القدوہ لکشف دفین الندوہ [۱۳۱۳ھ]
یہ فتوی ۱۳۱۳ہجری میں نادری پریس، بریلی سے چھپا۔ سرورق پر’’ بسعی و تالیف جناب مولانا مولوی محمد حسن رضا خان صاحب قادری برکاتی ابوالحسینی بریلوی سلمہ اللہ‘‘ تحریر ہے۔مزید فتوی کا تعارف یوں پیش کیا گیا ہے:
’’الحمدللہ فتوائے مسمی بنام تاریخی ‘‘فتاوی القدوہ لکشف دفین الندوہ‘‘[۱۳۱۳ھ] جس پر علمائے بمبئی، الہ آباد، دہلی و مراد آباد و رام پور و بدایوں و بریلی و پھپھوند و مارہرہ شریف وغیرہم کے پچاس سے زائد مہر و دستخط ثبت ہیں۔ ان فتاوی کو مولوی لطف اللہ صاحب علی گڑھی نے بھی نہایت حق و صحیح بتایا۔ حواشی میں ندوہ کی کتب رُوداد سے ہر قول کا نشان صفحہ وسطردے دیا گیا ہے۔اپنے دینی بھائیوں حضرات اہل سنت سے اسلام و سنت کا واسطہ دے کر معروض کہ خدارا ایک ذرا نظر انصاف سے ملاحظہ ہو۔ندوہ کے جو اقوال اس کی چھپی ہوئی کتابوں سے نقل کیے ہیں اگر ان میں شک ہو، صفحہ وسطر کا نشان موجود ہے مطابق فرمالیں اور جب وہ اقوال اس میں موجود ہیں تو ان پر جواحکام علمانے ارشاد فرمائے ، ملاحظہ ہو جائیں۔ جن سے آفتا ب کی طرح روشن کہ کتب ندوہ میں مذہب اہل سنت سے کس قدر مخالفتیں واقع ہوئیں۔
للہ انصاف اگر ہم فقرا محض بنظر خیرخواہی ندوہ ان خرابیوں سے اسے پاک کرنے اور سچا ندوہء علمائے اہل سنت بنانے کی درخواست کرتے ہیں کیا گناہ کرتے ہیں!!!ٍٍندوہ کو اگر یہ فتاوائے علما مقبول نہیں پہلے انہیں سوالوں کا خود منصفانہ جواب مطابق مذہب اہل سنت عنایت کرے۔ کتب ندوہ میں اس قسم کی خرابیاں بکثرت ہیں یہ سوالات صرف بطور نمونہ ہیں۔ اگر ندوہ نے ان سے عہدہ برائی کر لی اور سوال حاضر کیے جائیں گے یہاں تک کہ یاہم سمجھ لیں یا ندوہ کو خدا پاک کردے۔‘‘
حیات اعلیٰ حضرت جلد دوم صفحہ ۲۳ اور ۲۰۲ پر اس کتاب کو اعلیٰ حضرت کی تصنیف شمار کیا ہے ۔’’المجمل المعدد لتالیفات المجدد‘‘ میںاس کا نمبر شمار ۱۲۷ درج ہے۔
۱۲۔ آئینہء قیامت
واقعاتِ کرب وبلا کے دل کش اور نہایت موثر بیان پر مشتمل ، دلائل و براہین سے مزین تصنیف ہے۔پاک و ہند میں اب تک اس کے کئی ایڈیشنز چھپ چکے اور قبولیہ عامہ پا چکے ہیں۔ حال ہی میں دعوت اسلامی کے ادارہ المدینۃ العلمیہ نے اس رسالہ کو جدید ترتیب و تخریج کے ساتھ شائع کیا ہے۔اس سے قبل مکتبۂ رضویہ، لاہور کے مؤسس جناب ظہور الدین امرتسری نے الیکٹرک پریس، بریلی کے مطبوعہ نسخہ کو مجاہد ملت جناب مولانا عبدالستار نیازی علیہ الرحمۃ کی ترتیب و تحشیہ سے شائع کرنے کا اہتمام کیا۔ مولانا عبدالستار نیازی نے ’’پیغام حیات‘‘ کے عنوان سے ۹۲ صفحات پر مشتمل نہایت مبسوط اور جامع مقدمہ تحریر کیاجو کہ اصل کتاب کے سائز سے بڑھ کر ایک الگ کتاب کی حیثیت اختیار کر گیا ۔ راقم کے پیش نظر الیکٹرک پریس بریلی کا بارنہم( ۵۶ صفحات) اور حسنی پریس، بریلی بار ششم( ۴۸ صفحات) کے ایڈیشن ہیں۔ مؤخر الذکر رسالہ مولانا حسنین رضا خان کی تصحیح و اہتمام سے طبع ہوا۔
آئینہ قیامت کے علمی وتحقیقی معیار کی توثیق خود امام اہل سنت نے فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی صاحب نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے عرض کیا کہ محرم کی مجالس میں جو مرثیہ خوانی ہوتی ہے سننا چاہیے یا نہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب کی کتاب جو عربی میں ہے وہ یا حسن میاں مرحوم میرے بھائی کی کتاب’’ آئینۂ قیامت ‘‘میں صحیح روایات ہیں، انہیں سننا چاہیے۔‘‘ (الملفوظ حصہ دوم:۱۰۰)
مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان نوری علیہ الرحمۃ اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں’’آئینۂ قیامت تصنیف حضرت عمی جناب استاد زمن حسن رضا خان حسنؔ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ، یہ کتاب اعلیٰ حضرت کی دیکھی اور مجالس میں کتنی ہی بار سنی ہوئی ہے۔ (فتاوی مصطفویہ:۴۶۳ مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)
آئینہء قیامت کے سرقہ کی پُراسرار داستان:
ماہنامہ دین ودنیا ،دہلی کے ایڈیٹر مفتی شوکت علی فہمی نے’’ آئینۂ قیامت‘‘ میں تحریف و ترمیم کی اور کچھ اپنی طرف سے مضامین کا اضافہ کر کے ’’داستان کربلا‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔ اس جدید اشاعت میں اس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم سعی کی جو کہ مسلک اہل سنت کے سراسر منافی ہے۔ ماہنامہ دین و دنیا،دہلی میں ’’داستانِ کربلا‘‘ کا اشتہار پا کر علامہ سبطین رضا خان نے اس کا مطالعہ کیا اور اس مذموم ساز ش کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک مفصل مضمون تحریر فرمایا جو کہ ماہنامہ اعلیٰ حضرت، ستمبر اکتوبر ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں یہی مضمون مولانا جنید رضا خان کے توضیحی نوٹ کے ساتھ ماہنامہ سُنی دنیا، بریلی کے حسن رضا نمبر،۱۹۹۴ء میںشائع ہوا۔
اس کے علاوہ بھی آئینہء قیامت میں کچھ ترمیم واضافہ ناشرین کی کرم فرمائی سے ہوتارہا۔ چنانچہ مدیر سنی دنیا شہاب الدین رضوی صاحب لکھتے ہیں :
’’راقم السطور نے جب قدیم اور جدید نسخہ کا تقابل کیا تو یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ مولانا حسن رضا قدس سرہ کی تصنیف’’ آئینہ قیامت‘‘ میں کچھ اشعار کسی شاعر کے شامل کر دیے گئے ہیں یہ حرکت ناشر کی طرف سے ہوئی،پہلی بار کتاب جماعت رضائے مصطفی کے زیر اہتمام حسنی پریس، بریلی سے مولانا حسنین رضا خان بریلوی کی تصحیح سے شائع ہوئی۔ دوبارہ بریلی کے مشہور میلادخواں صوفی عزیز صاحب نے شائع کی، تیسری بار قومی کتب خانہ،بریلی نے شائع کی۔ پہلا اور تیسرا ایڈیشن راقم السطور کے پیش نظر ہے تیسرے ایڈیشن میں کسی دوسرے کے اشعار سامنے آئے جس سے بڑی حیرت ہوئی، فوراً ہی جا کر مینیجر قومی کتب خانہ بڑابازار سے دریافت کیا تو انہوں نے دوسرا ایڈیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ایسی بات ہے اس لئے ہم نے کوئی کمی بیشی نہیں کی ہے صرف اس کا عکس کرا لیا ہے۔ تیسرے ایڈیشن میں سرورق پر مصنف کی طرف سے ایک نوٹ بھی لگا ہوا ہے جبکہ یہ نوٹ پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔‘‘(ماہنامہ سنی دنیا:مولانا حسن رضا نمبر،صفحہ :۱۵۹۔۱۵۸)
۱۳۔ ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری
مولانا حسن رضا کی تصانیف میں کسی بھی تذکرہ نگار نے اس کو شمار نہیں کیا، یہ راقم کی طرف سے اضافہ ہے۔ تاہم کچھ محققین نے ’’قہر الدیان علی مرتد بقادیان‘‘ کو مولانا حسن رضا کی تصنیف میں ذکر کیا ہے اور بعض محققین نے اسے اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کی تحریر شمار کیا ہے جیسا کہ حیات اعلیٰ حضرت جلد دوم صفحہ ۳۴ پر ہے ۔ تصانیف ا علیٰ حضرت میں اس کا نمبر شمار۲۲۴ درج ہے۔ اس کے علاوہ ص۱۴۲ پر رد قادیانیت میں تصانیف اعلیٰ حضرت کی فہرست میں بھی اس کا نام درج ہے۔پھر فتاوی رضویہ مخرّجہ کی جلد۱۵ میں یہ رسالہ شامل ہے۔ ادارہ تحفظ عقائد اسلامیہ، کراچی کی طرف سے شائع کردہ ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کی جلد ثانی میں بھی یہ رسالہ اعلیٰ حضرت کی تصنیف کے طور پر شامل ہے۔
قہر الدیّان علی مرتدٍ بقادیان کس کی تصنیف ہے؟
اس ضمن میں عرض ہے کہ’’ قہر الدیان علی مرتد بقادیان‘‘ کو اعلیٰ حضرت یا مولانا حسن رضا کی تصنیف قرار دینا درست نہیں؛ کیونکہ یہ کسی تصنیف کا نام نہیں بلکہ رد قادیانیت میں مولانا حسن رضا خان کی طرف سے جاری کردہ ماہنامہ ہے۔چونکہ رسالہ ۱۳۲۳ھ میں جاری ہوا، اس لئے مولانا حسن رضا نے اسی مناسبت سے ایک تاریخی نام کا انتخاب فرمایا۔ راقم کے پاس اس رسالہ کا عکس موجود ہے جو کہ خانوادۂ قادریہ، بدایوں سے علامہ اُسید الحق صاحب نے عنایت کیا۔ اس کے علاوہ اس رسالہ کا ایک نسخہ محکمہ آثارقدیمہ، کراچی کے میوزیم میں بھی موجود ہے۔اس کے آخری صفحہ پر مولانا حسن رضا کی طرف سے جاری کردہ دس(۱۰) نکات پر مشتمل اشتہار ہے جس میں اس ماہنامہ کی شرائط و ضوابط تحریر ہیں ان میں سے پہلی یہ ہے ’’یہ رسالہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہر قمری مہینہ میں ایک بار شائع ہو گا‘‘کچھ دیگر شرائط متعلقہ رکنیت سازی، زر معاونت کی بابت تحریر ہیں اور نمبر۵ پر مولانا حسن رضا اس رسالہ کے اجرأ کا مقصد تحریر فرماتے ہیں:
’’اس رسالہ کا مقصد صرف مرزا و مرزائیان کا رد اور ان کے ان ناجائز حملوں کا دفع ہو گا جو انہوں نے عقائد اسلام و انبیائے کرام خصوصًا سیدنا عیسیٰ و حضرت مریم و خود حضور سید الانام علیہ و علیہم الصلاۃ والسلام حتی کہ رب العزت ذوالجلال والاکرام پر کیے ہیں، دوسرے فرقوں کا رد اس کا موضوع نہیں۔ اس کے لئے بعونہ تعالیٰ مبارک رسالہ تحفۂ حنفیہ عظیم آباد نیز اہل سنت کی اور کتب کافی و وافی ہیں۔‘‘
مزید یہ کہ اس رسالہ کے سرورق پر رسالہ کے نام کے ساتھ دائیں بائیں دو(۲) بار ’’ماہوار‘‘ تحریر ہے۔ مزید سرورق پر یہ عبارت تحریر ہے:
’’الحمدللہ مبارک ماہواری رسالہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخالف پر قہر الٰہی ڈھانے والا، عیسیٰ مسیح کلمۃ اللہ کے دشمن پر تیغ عذاب چمکانے والا،جھوٹے مسیح مرزا قادیانی اور اس کے الہام و وحی شیطانی کی بنیاد گرانے والا، محمدی فتح کے پھریرے اڑاتا، اسلامی شان کے نشان چمکاتا۔‘‘
مزید تحریر ہے’’زیرادارت ماحی بدعت حامیٔ سنت مولانا مولوی محمد حسن رضا خان سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی سلمہ‘‘
اندرون صفحہ پر رسالہ کے اجرا میں معاونت کرنے والے حضرات کے اسمائے گرامی کی فہرست ہے جن کی تعدادتقریبًا ۸۵ ہے۔
عربی خطبہ کے بعد مولانا حسن رضا کا اداریہ ہے جس کا کچھ حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے؛
’’یہ ایک غیبی تحریک ہوگئی جس نے اس ارادۂ رسالہ کی سلسلہ جنبانی فرمادی۔ اشتہار کا جواب اشتہاروں میں دیا گیا مناظرہ کے لئے ابکار افکار مرزا قادیانی کو پیام دیا، اس کے ہولناک اقوال ادعائے رسالت و نبوت و افضلیت من الانبیاء وغیرہا کفر وضلال کا خاکہ اڑایا، گالیوں کے جواب میں گالی سے قطعی احتراز کیا صرف اتنا دکھایا کہ تمہاری گالی آج کی نرالی نہیں ، قادیانی تو ہمیشہ سے اللہ و رسول و انبیائے سابقین و ائمہ دین سب کو گالیاں سنتا رہا ہے ، ہر عبارت اس کی کتابوں سے بحوالۂ صفحہ مذکور ہوئی ۔ مضمون کثیر تھا متعدد پرچوں میں اشاعت منظور ہوئی۔’’ ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری‘‘ نام رکھا گیا۔ اس میں دعوت مناظرہ شرائط مناظرہ طریق مناظرہ مبادی مناظرہ سب کچھ موجود ہے۔اس مختصر تحریر نے اپنی سلک منیر میں متعدد سلاسل لئے سلسلۂ دشنامہائے قادیانی بر حضرت ربانی و رسولان رحمانی و محبوبان یزدانی سلسلۂ کفریات وضلالات قادیانی سلسلۂ تناقضات و تہافتات قادیانی سلسلۂ دجالی و تلبیسات قادیانی سلسلۂ جہالات و بطالات قادیانی سلسلۂ تاصیلات سلسلۂ سوالات اور واقعی وقتی ضرورات مختلف مضامین پرکلام کی مقتضی ہوتی ہیں اور اس کے اکثر رسائل الٹ پھیر کر انہیں ڈھاک کے تین پات کے حامل لہذا ہر رسالے کے جداگانہ رد سے انہیں سلاسل کا انتظام احسن و اولیٰ ۔
اب بعونہ تعالیٰ اسی’’ ہدایت نوری‘‘ سے ابتدائے رسالہ ہے اور مولیٰ تعالیٰ مدد فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد وقتًا فوقتًا رسائل و مضامین میں حسب حاجت اندراج گزیں مناسب کہ جو کلام جس سلسلے کے متعلق آتا جائے بہ شمار سلسلہ اسی کی سلک میں انسلاک پائے جو نیا کلام ان سلاسل سے جدا شروع ہو ، اس کے لئے تازہ سلسلہ موضوع ہو ۔ اعتراضات کے تازیانے جن کا شمار خدا جاے اول تا آخر ایک سلسلے میں منضود اور ہر اعتراض حاشیہ پر تازیانہ یا اس کی علامت ’’ت‘‘ لکھ کر جدا معدود۔ مسلمانوں سے تو بفضلہ تعالیٰ یقینی امید مدد و موافقت ہے مرزائی بھی اگر تعصب چھوڑ کر خوف خدا اور روز جزا سامنے رکھ کر دیکھیں تو بعونہ تعالیٰ امید ہدایت ہے۔‘‘
اس قدر طویل اقتباس نقل کرنے کا مقصد ’’قہرالدیان علی مرتد بقادیان‘‘ کی حیثیت واقعی کوواضح کرناتھا۔ مولانا حسن رضا کے اس اداریہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ’’ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری‘‘ مولانا حسن رضا کی تصنیف ہے جو کہ اس رسالہ میں قسط وار شائع ہوئی ۔ ابھی تک اس رسالہ کا صرف پہلا شمارہ ہی دستیاب ہو سکاہے۔پہلی قسط کے اختتام پر آئندہ آنے والی قسط کی بابت یوں تحریر ہے: ’’فصل دوم: علی مرتضیٰ و امام حسن و امام حسین و فاطمہ زہرا اور خود محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیہم وسلم پر قادیانی کی گالیاں۔۔باقی آئندہ‘‘
۱۴۔ ندوہ کا تیجہ رُودادِ سوم کا نتیجہ[۱۳۱۴ھ]
یہ کتاب مشتملہ ۶۱ صفحات مطبع اہل سنت و جماعت ، بریلی سے ۱۳۱۴ھ میں طبع ہوئی۔ سرورق پر یہ عبارت تحریر ہے:
’’الحمدللہ یہ مبارک رسالہ جس میں بہت روشن و دل پسند و عام فہم و سود مند بیان سے ظاہر کیا ہے کہ ندوہ کا اصل مقصد کیا ہے اور اس دعوت اتحاد و اتفاق کی کس خیال پر بِنا ہے، اس ندوہ اخیر کو ندوہ سابقہ دارالندوہ سے علاقہ کتنا ہے۔ آخر میں ندوہ کی مختصر رُوداد سوم کی نامہذب دشناموں باطل اتہاموں کے معقول جواب مظہر صواب (تحریر ہیں۔)‘‘
سرورق پر مولانا حسن رضا کا نام یوں تحریر ہے:’’مداحِ مصطفی خادم الاولیا صاحب طبع نقاد و ذہن وقاد جناب مولانامولوی محمد حسن رضا خان صاحب حسنؔ قادری برکاتی ابُوالحسینی سلمہم اللّٰہ عن الافات والمحن‘‘
حیات اعلیٰ حضرت جلد دوم صفحہ۴۵ اور ص ۲۰۲پر اس کتاب کو اعلیٰ حضرت کی تصنیف شمار کیا ہے ۔ تصانیف ا علیٰ حضرت میں اس کا نمبر شمار۳۱۸ درج ہے۔
۱۵۔ اظہار رُوداد [۱۳۲۲ھ]
دارالعلوم ’’منظرالاسلام‘‘ کی پہلے سال کی رُوداد ہے جو کہ مولانا حسن رضا کی ترتیب سے ۱۳۲۲ھ میں مطبع اہل سنت ،بریلی سے شائع ہوئی۔اس رُوداد میں مدرسہ کے ساتھ تعاون کرنے والے مخیر حضرات کے اسمائے گرامی درج ہیں اور مدرسہ سے جاری ہونے والے آٹھ عدد فتاوی شامل ہیں۔
اس رسالہ کا مکمل عکس ماہنامہ اعلیٰ حضرت، بریلی کے ’’صد سالہ فتاوی منظر الاسلام نمبر‘‘ ّ(تیسری قسط) میں موجود ہے۔
۱۶۔ کوائف اخراجات [۱۳۲۳ھ]
یہ ’’منظرالاسلام‘‘ کے دوسرے سال کی رُوداد ہے، اس میں دوسرے سال کی آمدنی اور خرچ کی تفصیلات ہیں ۔نیز کلاس وار طلباء کی تعداد اور زیر درس کتابوں کی نشان دہی،اساتذہ و ممتحن حضرات کے اسمائے گرامی بھی درج ہیں۔ علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمۃ اس رُوداد پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’اس روئداد سے منظرالاسلام کے نصاب کا پتہ چلتا ہے، نصاب میں جہاں منطق کی کتب میرزاہد،ملاجلال،ملاحسن،حمداللہ،قاضی مبارک، شرح سلم، بحرالعلوم، فلسفہ میں مبیذی اور علم ہئیات میں تصریح وغیرہ کتب شامل ہیں، شفاء شریف اور مسند امام اعظم بھی شامل نصاب ہیں جنہیں آج بھی شامل نصاب کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح فارسی کی متعدد کتب تعلیم عزیزی،اخلاق محسنی،انوار سہیلی،گلزار دبستاں (حصہ اول)،رُقعات، مظہرالحق وغیرہ شامل ہیں۔‘‘ (ماہنامہ اعلیٰ حضرت، منظرالاسلام نمبر۔قسط دوم:۵۶)
روئداد کے صفحہ نمبر۵۱ پر مولانا شاہ سلامت اللہ رام پوری منتظم مدرسہ مولانا حسن رضا کی بابت تحریر فرماتے ہیں:
’’ہمت عالی اور توجہ خاص منتظم دفتر جناب مولانا حسن رضا خان صاحب دام مجدہم سے اُمید کامل ہے کہ اس مدرسہ مبارکہ سے جس کی نظیر اقلیم ہند میں کہیں نہیں ہے،ایسے برکات فائض ہوں جو تمام اطراف و جوانب کی ظلمات اور کدُورات کو مٹائیں اور ترویج عقائد حقہ مُنیفہ اور ملت بیضاء شریفہ حنیفہ کے لئے ایسی مشعلیں روشن ہوں جن سے تمام عالم منور ہو۔‘‘
اس رُوداد کے کل ۵۲ صفحات ہیں ،مولانا حسن رضا کی ترتیب سے مطبع اہل سنت و جماعت، بریلی سے طبع ہوئی۔
۱۷۔سوالات حقائق نما بر رؤس ندوۃ العلماء[۱۳۱۳ھ]
سوالات حقائق نما بر رؤس ندوۃ العلماء ،۱۹ رمضان المبارک ۱۳۱۳ہجری میںنادری پریس ، بریلی سے مولانا حسن رضا کی تقدیم کے ساتھ طبع ہوئی۔ سرورق پر مؤلف کانام بھی ’’حسن رضا خان قادری برکاتی بریلوی غفرلہ‘‘ تحریر ہے۔ مزید سرورق پرکتاب کا تعارف تحریر ہے:
’’اس میں ستر(۷۰) سوالات ہیں کہ محض بنظر خیرخواہی ندوہ و حفظ مذہب اہل سنت حضرت ماحی فتن حامی سنن خادم شرع و ملت عالم اہل سنت جناب مولانا مولوی احمد رضا خان صاحب محمدی سُنی حنفی قادری برکاتی دامت فیوضہم نے خود ندوہ کی خواہش و درخواست پر پیش فرمائے اور باوصف باربار کثیر تقاضوں کے لاجواب رہے۔ ان سوالات سے ہر سُنی کو واضح ہو گا کہ سوئے اتفاق سے ندوہ کی کاروائیوں تحریروں تقریروں میں کتنی باتیں مضر و مخالف مذہب اہل سنت واقع ہوئیں، جن کی اصلاح اور مذہب حق کی پابندی ندق العلما کا پہلا فرض ہے۔بنظر خیرخواہی مکرراً معروض کہ ندوہ یا تو سچے انصاف سے عالمانہ جواب دے ورنہ سچی پابندی مذہب اہل سنت اختیار کرے۔ وباللہ التوفیق‘‘
اس مکتوب کو ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی نے مولانا حسن رضا کی تقدیم کو حذف کرتے ہوئے مکاتیب رضا کی جلد دوم صفحہ نمبر ۱۲۷۔۱۰۷ پر نقل کیا ہے۔
0 Comments: