کتے
محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
کتے اللہ تعالیٰ کی عجیب وغریب مخلوق ہیں، یہ کئی عددخصوصیات کے حامل ہوتے ہیں، اُن میں سے ایک ’’قوتِ شامہ‘‘کی تیزرفتاری ہے، یہ ہوائی جہاز کی رفتارسے بھی کئی گنازیادہ ہوتی ہے، اِس کااندازہ آپ اُس وقت کرسکتے ہیں، جب ابروبادسے تربترشبِ دیجورمیں کسی ایسے کوچہ سے آپ کاگزرہو، جہاں صرف کرمکِ شبِ تاب کی روشنی ہی میں قدم رکھا جاسکتا ہو، کوچہ کے اِس نکڑپرقدم جماتے ہی اُس نکڑسے استقبالیہ کا ایک طرح آپ کی طرف اُچھالا جاتاہے، پھراِس طرح کے جواب میں کوچۂ جاناں سے پوراایک شعرپھینکاجاتاہے، جب کہ کوچۂ جانِ جاناں سے پوری رباعی برسادی جاتی ہے، پھراس شاہانہ طمطراق سے نظم اورمرثیہ نماقصائدکابازارگرم ہوجاتاہے کہ آپ ہی دم دباکربھاگ لینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
قوتِ شامہ کی اِسی تیزی کانتیجہ ہے کہ پوری دنیاکی انٹیلی جنس اُنھیں کے رحم وکرم کی روٹی توڑتی نظرآتی ہے، بم دھماکے ہوں یارہزنی کے واقعات، انویسٹی گیشن ٹیم انہی کتوں کی دموں کے پیچھے پیچھے اپنی تصوراتی دُم ہلاتے ہوئے معاملہ کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتی ہے، شاید اسی وجہ سے تحقیقاتی ٹیم کودیکھ کربچے گلیوں میں شورمچانے لگتے ہیں’’کتے آرہے ہیں، کتے آرہے ہیں‘‘۔
قوت شامہ کی اسی تیزی کے نتیجہ میں بعض لوگ (بالخصوص وہ شوہر، جن کی بیویوں نے پرسنل کتے پال رکھے ہوں)کتوں کوکتاہی کہہ بلاتے ہیں، ہوسکتاہے کہ بیویوں کے پرسنل کتے ان کی اپنی پرسنل لائف میں دخیل بن جاتے ہوں، خواہ یہ پرسنل لائف اندرون خانہ ہویابیرون خانہ۔
اُن کی دوسری خصوصیت’’ وفاداری‘‘ ہے، آپ ان کے سامنے بے گوشت ہڈی ڈال دیں، وہ دُم ہلاکرآپ کے ساتھ ہولیں گے، ان کی یہ خصوصیت اب اتنی مسلم حقیقت بن چکی ہے کہ سوبارچاہنے کے باوجودجھٹلایانہیں جاسکتا،شایدیہی وجہ ہے کہ عورتیں(بالخصوص مغرب کی اوران کے نقشِ پاپرچلنے والی مشرقی ممالک کی)شوہروں کی وفاداری پرتوشک کرلیتی ہیں؛ لیکن اپنے سدھائے ہوئے کتوں پرنہیں، وہ دن دور نہیں کہ کتوں کی وفاداری کی اسی خصوصیت کی بناپرشوہروں کی تلاش کے لئے اشتہارپریہ جملہ درج کیا جائے کہ ’’ہمیں کتے جیسے وفادارشوہرکی ضرورت ہے‘‘۔
وفاداری کی اسی خصوصیت کی بناپرآج کل کی الٹرامارڈن خواتین کتوں کوتواپنی آغوش میں بٹھاناپسندکرتی ہیں؛ لیکن اپنی کوکھ سے جنم لینے والے بچوں کوبٹھاناپسندنہیں کرتیں، اس پرمستزادیہ کہ پارکوں میں کھیل کودبھی انھیں کے ساتھ کرتی ہیں، جب کہ اپنے بچے مسکین صورت بناکرایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں،یہ دیکھ کر شایدان کی بھی دلی خواہش ہو کہ’’ کاش ! ہم بھی کتے ہوتے‘‘۔
آج کل کے مصروف ترین زمانہ میں لوگ رشتے ناطے بھولتے جارہے ہیں، سامنے سے گزرنے کے باوجودہائی ہیلوتک نہیں کرتے؛ لیکن یہ کتے ہی ہیں، جوچپل کی چاپ سن کرہی آپ کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں، اگرشناسانکلے تودُمیں ہلنے لگتی ہیں؛ لیکن شناسائی نہیں ہے توبھی دُمیں ہلتی ہیں؛ لیکن چھپٹ پڑنے کے لئے، اب آپ کے جگرگردے کی آزمائش ہے، میدان کارزارمیں قدم جم گئے توکتے دُم دباکربھاگ نکلیں گے، ورنہ آپ کو دم نہ ہونے کے باوجوددم دباکربھاگناہوگا۔
مغرب میں تومدت ِمدیدسے کتوں کے ساتھ جذباتی تعلق اوران کی اہمیت مسلم چلی آرہی ہے؛ حتی کہ اب وہ خودکتے بن چکے ہیں، لہٰذا جس وقت اور جہاں کہیں بھی ان کی جنسی خواہش بیدارہوتی ہے، وہ اردگردسے بے خبرجٹ جاتے ہیں؛ لیکن آپ یہ نہ سمجھئے کہ ہماراملک، جونقالی میں بندروں سے زیادہ تیز ہے، کتوں کی اہمیت کوسمجھنے اوران کے ساتھ جذباتی تعلق رکھنے کے معاملہ میں پیچھے ہے؛ بل کہ منھ سے منھ اورپاسے پا ملاکرچلنے کی کوشش میں سرگرداں ہی نہیں، اب اس میں کامران بھی ہوچکے ہیں؛ چنانچہ ان کے لئے بھی پارلرز بنائے جاچکے ہیں، جہاں آئل مساج، کنڈیشنگ ٹریٹمنٹ اورہاٹ پیک کے ساتھ ساتھ پیڈیکیوراورمینیکیور کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، لوگ اپنے بالوں کے ترشوانے کی اتنی فکرنہیں کرتے، جتنی فکراپنے کتوں کے بال ترشوانے کی کرتے ہیں، اسی پربس نہیں؛ بل کہ ان کے لئے ڈی بورڈنگ کابھی انتظام ہوچکاہے، اوراس سے بڑھ کربات یہ ہے کہ عدلیہ کی طرف سے اس بات کی اجازت بھی مل چکی ہے کہ لوگ کتوں جیسی زندگی بغیرہچکچاہٹ کے گزارسکتے ہیں۔
ان تمام کے باوجودلفظ ’’کتا‘‘آج بھی مشرق میں ناپسندیدہ ہی ہے؛ لیکن وہ وقت دورنہیں، جب اس لفظ کوقابل فخرسمجھاجانے لگے، عجب نہیں خود کتے ہی عدلیہ میں مقدمہ دائرکردیں کہ لفظ ’’کتا‘‘کے مفہوم اورمعانی بدل دئے جائیں؛ تاکہ ہماری کمیونٹی بھی خوش خرم زندگی گزارسکے۔
0 Comments: