آسمانی دستر خوان
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے یہ عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب یہ کرسکتا ہے کہ وہ آسمان سے ہمارے پاس ایک دستر خوان اتاردے؟ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس طرح کی نشانیاں طلب کرنے سے اگر تم لوگ مومن ہو تو خدا سے ڈرو۔ یہ سن کر حواریوں نے کہا کہ ہم نشانی طلب کرنے کے لئے یہ سوال نہیں کررہے ہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم شکم سیر ہو کر خوب کھائیں اور ہم کو اچھی طرح آپ کی صداقت کا علم ہوجائے تاکہ ہمارے دلوں کو قرار آجائے اور ہم اس بات کے گواہ بن جائیں تاکہ بنی اسرائیل کو ہماری شہادت سے یقین اور اطمینان کلی حاصل ہو جائے اور مومنین کا یقین اَور بڑھ جائے اور کفار ایمان لائیں۔
(۱)حواریوں کی اس درخواست پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ خداوندی میں اس طرح دعا مانگی:۔
ترجمہ کنزالایمان:۔ اے رب ہمارے ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عیدہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اورہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
(پ۷،المائدۃ:۱۱۴)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دستر خوان تو اتاردوں گا لیکن اس کے بعد بنی اسرائیل میں سے جو کفر کریگا میں اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ تمام جہان والوں میں سے کسی کو ایسا عذاب نہیں دوں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے چند فرشتے ایک دستر خوان
لے کر آسمان سے اترے جس میں سات مچھلیاں اور سات روٹیاں تھیں۔
(تفسیر جلالین،ص۱۱۱،پ۷،المائدۃ:۱۱۵)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرشتے دستر خوان میں روٹی اور گوشت لے کر آسمان سے زمین پر نازل ہوئے اور بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ تلی ہوئی ایک بہت بڑی مچھلی تھی جس میں کانٹا نہیں تھا اور اس میں سے روغن ٹپک رہا تھا اور اس کے سر کے پاس نمک اور دم کے پاس سرکہ تھا اور اس کے اردگرد قسم قسم کی سبزیاں تھیں اور پانچ روٹیاں تھیں۔ ایک روٹی کے اوپر روغن زیتون، دوسری پر شہد، تیسری پر گھی، چوتھی پر پنیر، پانچویں پر گوشت کی بوٹیاں تھیں۔ دستر خوان کے ان سامانوں کو دیکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک حواری شمعون نے کہا جو تمام حواریوں کا سردار تھا، کہ اے روح اللہ! یہ دستر خوان دنیا کے کھانوں میں سے ہے یا آخرت کے۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ نہ تو دنیا کے کھانوں میں سے ہے نہ آخرت کے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے تمہارے لئے اس کھانے کو ابھی ابھی ایجاد فرما کر بھیجا ہے۔ (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۲،ص۳۰۴،پ۷،المائدۃ:۱۱۵)
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ خوب شکم سیر ہو کر کھاؤ۔ اور خبردار اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرنا۔ اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر نہ رکھنا۔ مگر بنی اسرائیل نے اس میں خیانت بھی کرڈالی اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر بھی رکھ لیا۔ اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں پر یہ عذاب آیا کہ یہ لوگ رات کو سوئے تو اچھے خاصے تھے مگر صبح کو اٹھے تو مسخ ہو کر کچھ خنزیر اور کچھ بندر بن گئے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کی موت کے لئے دعا مانگی تو تیسرے دن یہ لوگ مر کر دنیا سے نیست و نابود ہو گئے اور کسی کو یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ ان کی لاشوں کو زمین نگل گئی یا اللہ نے ان کو کیا کردیا۔
(تفسیر جمل علی الجلالین،ج۲،ص۳۰۴،پ۷،المائدۃ:۱۱۵)
اللہ تعالی نے اس عجیب اور عظیم الشان وا قعہ کا تذکرہ قرآن مجید کی سورئہ مائدہ میں فرمایا ہے۔ اور اسی واقعہ کی وجہ سے اس سورہ کا نام ''مائدہ'' رکھا گیا۔ ''مائدہ'' دسترخوان کو کہتے ہیں
قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلْ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَارْزُقْنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿114﴾قَالَ اللہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمْ ۚ فَمَنۡ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنۡکُمْ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿115﴾ (پ7،المائدۃ:114،115)
ترجمہ کنزالایمان:۔ عیسیٰ بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ میں اسے تم پر اتارتا ہوں پھر اب جو تم میں کفر کریگا تو بے شک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی پر نہ کروں گا۔
درس ہدایت:۔واقعہ مذکورہ سے بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں ملتی ہیں۔ جن میں سے یہ دو سبق تو بہت ہی واضح ہیں:۔
(۱)حضرات انبیاء علیہم السلام کی مخالفت اور نافرمانی کتنا خوفناک جرم عظیم ہے دیکھ لو!کہ بنی اسرائیل نے جب اپنے نبی علیہ السلام کی مخالفت و نافرمانی کرتے ہوئے آسمانی دستر خوان میں خیانت کی اور کل کے لئے ذخیرہ بنا کر رکھ لیا تو عذاب ِ الٰہی نے ان کو خنزیر بندر بنا کر دنیا سے اس طرح نیست و نابود کردیا کہ ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہ رہا۔
جو لوگ اللہ و رسول کی امانتوں میں خیانت کرتے ہیں۔ انہیں اس ہولناک عذاب سے عبرت حاصل کرنی چاہے اور توبہ کرلینی چاہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)
(۲)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا میں یہ جملہ کہ جس دن دستر خوان نازل ہو گا وہ دن
ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے عید کا دن ہو گا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس دن قدرتِ خداوندی کا کوئی خاص نشان ظاہر ہو، اس دن خوشی منانا اور مسرت و شادمانی کا اظہار کر کے عید منانا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مقدس سنت ہے۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی رات اور اس کا دن یقینا خداوند قدوس کے ایک نشانِ اعظم کے ظہور کی رات اور دن ہے لہٰذا میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشی منانا اور اس تاریخ کو عید میلاد کہنا یقینا قرآن مجید کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔ خوشی منانا، گھروں اور محفلوں کی آرائش کرنا، اچھے اچھے پکوان پکا کر خود بھی کھانا اور دوسروں کو کھلانا یہی سب عید کی نشانیاں، اور عید منانے کے طریقے ہیں جن پر بارہویں شریف کو اہل سنت و جماعت عمل کر کے عید میلاد کی خوشی مناتے ہیں اور جو لوگ اس سے چڑتے ہیں اور اس تاریخ کو اپنے گھر اندھیرا رکھتے ہیں، جھاڑو بھی نہیں لگاتے اور میلے کچیلے کپڑے پہن کر منہ لٹکائے پھرتے ہیں اور عید میلاد کی خوشی منانے والوں کو بدعتی کہہ کر پھبتیاں کستے ہیں، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہے اور اہل سنت کو چاہے کہ خوب خوب خوشی منائیں اور کثرت سے میلاد شریف کی مجلس منعقد کریں اور خوب جھوم جھوم کر صلوٰۃ و سلام پڑھیں:۔
مثلِ فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکر آیات ولادت کیجئے
(حدائق بخشش، حصہ اول ص ۱۴۰ )
0 Comments: